rki.news
(تحریر احسن انصاری)
ایڈولف ہٹلر جدید تاریخ کی اُن شخصیات میں شمار ہوتا ہے جنہوں نے بیسویں صدی کے سیاسی اور عالمی نقشے پر گہرے اور تباہ کن اثرات چھوڑے۔ نازی پارٹی کے سربراہ اور 1933 سے 1945 تک جرمنی کے مطلق العنان حکمران کے طور پر، ہٹلر کی سیاسی حکمتِ عملی، نسلی نظریات اور جنگی فیصلوں نے دنیا کو دوسری عالمی جنگ کے ہولناک بحران میں دھکیل دیا۔ اس کی شخصیت، اقتدار کا سفر اور جنگی کارروائیاں آج بھی دنیا بھر میں تحقیق اور بحث کا موضوع ہیں۔
ہٹلر 20 اپریل 1889 کو آسٹریا کے شہر براؤناؤ ام اِن میں پیدا ہوا۔ پہلی عالمی جنگ کے دوران اس نے جرمن فوج میں بطور سپاہی خدمات انجام دیں۔ جنگ کے اختتام پر جب جرمنی شدید معاشی بحران، سیاسی انتشار اور ورسیلز معاہدے کی سخت شرائط سے دوچار تھا، تو ہٹلر نے انہی حالات کو اپنی سیاست کی بنیاد بنایا۔ 1919 میں اس نے جرمن ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، جسے بعد میں اس نے نازی پارٹی کی شکل دی۔ قوم پرستی، یہود دشمنی، کمیونزم مخالف سوچ اور آریائی نسل کی برتری جیسے نظریات نے ہٹلر کو سیاسی شہرت دی، اور آنے والے برسوں میں وہ جرمنی کے ایک نمایاں رہنما کی صورت میں سامنے آیا۔
1929 کے عالمی معاشی بحران نے جرمنی کو شدید متاثر کیا۔ بے روزگاری، افلاس، مہنگائی اور حکومتی کمزوریاں جرمن معاشرے کو مایوسی میں دھکیل رہی تھیں۔ ہٹلر نے ان حالات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عوام کے جذبات سے کھیلنا شروع کیا اور جرمنی کی تمام مشکلات کا ذمہ دار یہودیوں، کمیونسٹوں اور جمہوری حکومتوں کو قرار دیا۔ اتحادیوں اور سیاسی چالوں کے نتیجے میں 30 جنوری 1933 کو ہٹلر جرمنی کا چانسلر بن گیا۔ اقتدار میں آتے ہی اس نے رائخ سٹاگ کی آتشزدگی اور خصوصی قوانین کے ذریعے تمام جمہوری ادارے ختم کر دیے اور جرمنی کو ایک آمرانہ ریاست میں تبدیل کر دیا۔
ہٹلر کے دورِ حکومت میں نازی نظریات کے تحت ایک مکمل آمرانہ نظام قائم کیا گیا۔ سیاسی جماعتیں بند کر دی گئیں، مخالف لیڈرز کو گرفتار یا ختم کر دیا گیا، ٹریڈ یونینز تحلیل کر دی گئیں اور گیسٹاپو و ایس ایس کے ذریعے عوام پر سخت کنٹرول قائم کیا گیا۔ معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے بڑے سرکاری منصوبے شروع کیے گئے، صنعتوں کو جنگی ضروریات کے مطابق ڈھالا گیا اور فوجی سازوسامان کی بڑے پیمانے پر تیاری نے بے روزگاری میں نمایاں کمی پیدا کی۔ تاہم دوسری طرف نسلی بنیادوں پر امتیازی قوانین نافذ ہوئے، جن میں 1935 کے نیورمبرگ قوانین سب سے زیادہ اہم تھے۔ ان قوانین کے تحت یہودیوں کے شہری حقوق سلب کر لیے گئے، جب کہ بعد میں انہی پالیسیوں نے ہولوکاسٹ جیسے المناک سانحے کو جنم دیا، جس میں کم از کم 60 لاکھ یہودی قتل کر دیے گئے۔
پہلی عالمی جنگ میں ہٹلر محض ایک سپاہی تھا، مگر جنگ کے تلخ تجربات نے اس کی سوچ تشکیل دی۔ جرمنی کی شکست کو اس نے اندرونی سازش قرار دیا، جو بعد میں نازی پروپیگنڈے کا بنیادی حصہ بنی۔ دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہٹلر کے توسیع پسندانہ عزائم سے ہوا۔ اس نے آسٹریا کو ضم کیا، چیکوسلواکیہ کے علاقوں پر قبضہ کیا اور یورپ میں جرمنی کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش کی۔ آخرکار یکم ستمبر 1939 کو پولینڈ پر حملے کے بعد برطانیہ اور فرانس نے جنگ کا اعلان کر دیا اور یوں دوسری عالمی جنگ چھڑ گئی۔
جنگ کے ابتدائی مرحلے میں جرمنی نے برق رفتار فوجی حکمتِ عملی کے ذریعے یورپ کے بڑے حصے پر قبضہ کر لیا۔ پولینڈ، ناروے، بیلجیم، نیدرلینڈز اور فرانس جرمن کنٹرول میں آ گئے۔ تاہم 1941 میں سوویت یونین پر حملے کی غلطی، امریکا کی جنگ میں شمولیت اور اسٹالن گراڈ میں تاریخی شکست نے جرمنی کے زوال کی بنیاد رکھ دی۔ اتحادی افواج نے جرمنی کے شہروں پر شدید فضائی حملے کیے، اور مشرقی و مغربی دونوں محاذوں پر جرمن فوج پسپا ہونے لگی۔
بالآخر 1945 تک ہٹلر کی حکومت مکمل کمزور ہو چکی تھی۔ روسی فوج برلن کے قریب پہنچ چکی تھی، اور 30 اپریل 1945 کو ہٹلر نے اپنے بنکر میں خودکشی کر لی۔ 8 مئی 1945 کو جرمنی نے غیر مشروط ہتھیار ڈال دیے اور یورپ میں جنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ دوسری عالمی جنگ انسانیت کی تاریخ کی سب سے تباہ کن جنگ ثابت ہوئی، جس میں 70 سے 85 ملین (7 سے 8 کروڑ 50 لاکھ) انسان ہلاک ہوئے۔ ان اموات میں لاکھوں فوجیوں اور 5 کروڑ سے زائد عام شہریوں کی ہلاکتیں شامل تھیں۔ سوویت یونین نے سب سے زیادہ جانی نقصان برداشت کیا، جو 2 کروڑ سے زائد تھا، جب کہ چین میں بھی 1 کروڑ سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ یورپ مکمل طور پر تباہ ہو گیا اور عالمی سیاست ایک نئے خاکے کے ساتھ سامنے آئی۔
ایڈولف ہٹلر کا دورِ حکومت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ کس طرح ایک فرد کی انتہاپسند سوچ، جمہوری اقدار کی تباہی اور نسلی نفرت دنیا کو تباہی کے دہانے پر لا سکتی ہے۔ اس کی حکومت کا انجام پوری انسانیت کے لیے ایک سبق ہے کہ قوموں کو جمہوریت، برداشت، رواداری اور انسانی حقوق کا احترام ہر حال میں قائم رکھنا چاہیے۔
Leave a Reply