rki.news
حریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
قیادت صرف اقتدار کا نام نہیں، بلکہ ایک روشن مشعل ہے جو اندھیروں میں راستہ دکھاتی ہے۔ اصل قائد وہ ہے جو قومی و ملی تقاضوں کے مطابق عوام کی رہنمائی کرے، مسائل کا حل سوچ سمجھ کر نکالے، اور فیصلوں میں انصاف اور حکمت کو مدنظر رکھے۔ معاشرہ چونکہ اجتماعی کوشش اور تعاون سے بنتا ہے، اس لیے قیادت کا کردار نہایت اہم ہے۔ ایک اچھے قائد کے کردار سے زندگی کے چمن میں خوشبو اور بہار آ جاتی ہے۔
اچھی قیادت کی بنیاد شفافیت، مستقل مزاجی، تحمل اور دور اندیشی پر ہوتی ہے۔ اس راز سے اگاہی رکھتے ہیں کہ غرور اور ذاتی مفاد معاشرے میں خلا پیدا کرتے ہیں اور جب عوامی احساسِ محرومی بڑھتا ہے تو اتحاد کے موتی بکھر جاتے ہیں۔ بعض وقت شخصی انا اور وقتی مفاد کی بنیاد پر کیے گئے فیصلے عوام کو مشکلات میں ڈال دیتے ہیں اور قیادت کا وقار متاثر ہوتا ہے۔ جو لوگ عوامی رائے اور اجتماعی طاقت کو نظر انداز کرتے ہیں، وہ رفتہ رفتہ تنہا رہ جاتے ہیں۔
اقبالؒ کے اشعار ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ افراد کے ہاتھوں میں اقوام کی تقدیر ہے اور ہر فرد ملت کے مقدر کا ستارہ ہے۔ اسی طرح مقامی سطح پر بھی قیادت میں منصوبہ بندی، مشاورت اور عملی حکمتِ عملی ضروری ہے۔ مؤثر قیادت کا حسن اسی میں ہے کہ وہ عوام کے ساتھ خلوص اور اعتماد پر مبنی تعلق قائم کرے۔ گروہ بندی، تعصب اور ذاتی انا سماج کو کمزور کرتے ہیں، جبکہ اتحاد، اتفاق اور یکجہتی خوشحال اور پرامن ماحول پیدا کرتے ہیں۔
ایک بہترین قائد صرف رہنمائی نہیں کرتا بلکہ عوام کی عزت نفس اور وقار کا بھی خیال رکھتا ہے۔ ایسے قائد کے زیر اثر ہر فرد اپنے کردار اور اہمیت کا احساس کرتا ہے، جس سے معاشرہ مضبوط اور ترقی یافتہ بنتا ہے۔ غالبؔ کے الفاظ ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دل انسانیت کی بنیاد ہے اور درد و محبت کے بغیر قیادت کا اصل حسن ممکن نہیں۔
اچھی قیادت کے لیے ضروری ہے کہ افراد کے درمیان محبت، قربت اور اعتماد قائم رہے۔ گفتگو، مثبت رویہ اور خلوص سے سماج میں فاصلے کم ہوتے ہیں اور اتحاد پیدا ہوتا ہے۔ موجودہ دور میں افراد اپنی مرضی سے فیصلے کرتے ہیں، اس لیے قیادت بھی ایک امتحان کے مترادف ہے۔ اگر قائد عوام کے ساتھ قدم بہ قدم چلیں تو سماج میں خوشی، ہم آہنگی اور ترقی ممکن ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ قیادت کا معیار صرف اقتدار کی مدت یا عہدے سے نہیں بلکہ عوام کے دل میں چھائے اثر اور خدمت کے جذبے سے ناپا جاتا ہے۔ ایک ایسا قائد جو مسائل کو سنجیدگی سے سمجھے، انصاف اور حکمت کے ساتھ فیصلے کرے اور عوام کے ساتھ خلوص پر مبنی تعلق رکھے، وہی معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کا حقیقی ضامن ہے۔قیادت کی تمنا سے پہلے یہ راز جاننے کی ضرورت ہوتی ہے کہ”سنگ و خشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا“خاندان اور برادریوں میں بھی دوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں جن سے معاشرتی خلا بڑھتا چلا جاتا ہے۔اب تو زندگی کے راستے بھی دشوار سے لگتے ہیں۔دردوغم کی شمع سے تو سماج درد کی تصویر ہے۔ایسے میں غم و الم کی فضا میں نکھار پیدا کرنے کے لیے ضرور ایسے لوگوں کی ضرورت ہے جو سماج کے پیرہن کی سلامتی کے لیے کردار ادا کر پاٸیں۔کیونکہ بقول شاعر:-
”شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک“زندگی کے سفر میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو اعتدال کی راہ پر چلتے ہیں۔شب و روز کی گردشوں کا تسلسل ضرور اس بات کا سبق ہے کہ کاروان زندگی رکتا نہیں۔ثابت قدمی سے یہ سفر طے کیا جا سکتا ہے۔قیادت سے اتنا سوال تو کیا جا سکتا ہے ” ہم لبوں سے کہہ نہ پاۓان سے حالِ دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں ہیں خاموشی کیا چیز ہے“ساغر صدیقی
Leave a Reply