rki.news
تحریر ۔ شفیق مراد (جرمنی)
تمثیلہ لطیف اردو ادب کی ایک ہمہ جہت اور معتبر شخصیت ہیں۔ وہ ایک نقاد، افسانہ نگار، تبصرہ نگار اور شعری اُفق پر روشن ستارہ ہیں۔ایک ایسا ستارہ جو اپنے اندر کئی کہکشائیں سمیٹے ہوئے ہے ۔ ان کی تحریریں محض الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ فکری گہرائی اور معنوی وسعت کی آئینہ دار ہیں۔ حالاتِ حاضرہ پر ان کی گہری نظر اور دقیق مشاہدہ ہے جوان کے مضامین میں جھلکتا ہے۔ان کی تحریریں پسماندہ معاشرے کے غیر مساوی نظام کے طلم کی چکی میں پسے ہوئے انسان کو بیدار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں
بطور شاعرہ، تمثیلہ لطیف کی شاعری میں نہ صرف فکری پختگی نمایاں ہے بلکہ ایک منفرد اسلوب اور معنی آفرینی کےساتھ صفحہ قرطاس پر زندگی کے رنگ بکھیرتی ہے ۔ ان کے اشعار جذباتی وابستگی سے ہٹ کر فکری سطح پر قاری کو جھنجھوڑتے ہیں۔غرضیکہ ان کی شاعری میں نغمگی کے ساتھ ساتھ شعور کی ایک ایسی گونج سنائی دیتی ہے جو انسانی رویوں کی ناپائیداری، معاشرتی بے اعتنائی اور عصرِ حاضر کے الجھے ہوئے تضادات کی عکاسی کرتی ہے۔
جیسے وہ کہتی ہیں:
یہ خوف ہے کہ خیالوں میں بھی ملوں تو ترے
قبیلے والے ہی کر دیں نہ سنگسار مجھے
یہ بد نصیبی کا عالم بھی کیا قیامت ہے
کہ فصلِ گُل میں بھی راس آ رہے ہیں خار مجھے
ان کے اشعارنہ صرف انسانی مجبوریوں محرومیوں کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ معاشرے کے اس رویے پر بھی گہرا طنز ہیں جہاں سوچنے، محسوس کرنے اور سچ بولنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ تمثیلہ لطیف کی تحریریں اور شاعری ایک ایسے شعور کی نمائندگی کرتی ہیں جو معاشرتی اقدار اور انسانی جذبات کو نئے زاویوں سے دیکھنے پر مجبور کرتی ہیں۔
اگر ان کی نثر کی بات کریں تو افسانوں میں کردار صرف کہانی کا حصہ نہیں ہوتے، بلکہ ایک زندہ سماجی دستاویز کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ جو انسانی نفسیات، طبقاتی کشمکش، اور داخلی و خارجی جنگ کو نہایت حساسیت اور دیانتداری سے پیش کرتے ہیں۔
تمثیلہ لطیف کا تنقیدی انداز بھی روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ تخلیقی بصیرت سے مزین ہے۔ وہ صرف ادب کے ظاہر پر نہیں بلکہ اس کے باطن کو سمجھنے اور سمجھانے کا ہنر رکھتی ہیں۔ ان کی تنقید محض تجزیہ نہیں بلکہ نثر یا شاعری کے لوازمات اور محاسن کو بھیئ بطریقِ احسن تحریر کرتی ہیں جو قاری کے فکری افق کو وسعت دیتی ہیں ۔
تمثیلہ لطیف آج کے اردو ادب میں ایک ایسی آواز ہیں جو نہ صرف مختلف جہات پر اظہارِ خیال رکھتی ہیں بلکہ اپنے قلم سے سماج کی نبض شناس بھی ہیں۔ ان کا ادبی سفر نئی نسل کے لیے ایک مثال ہے جو علم، شعور اور جذبے کے ملاپ سے تخلیق پاتا ہے
                                     
                                    
                                        
			
	
	
	                                    
                                    
Leave a Reply