Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بارڈر کے اس پار

Articles , Snippets , / Thursday, May 15th, 2025

rki.news

وہ بایس اپریل دو ہزار پچیس کا ایک روشن دن تھا، ویسا ہی جیسا روزانہ ہم اور آپ دیکھتے ہیں چمکدار، دہکتے ہوے روشن گولے کی تیز آنکھوں کو چندھیا دینے والی روشنی کے ہالے میں لپٹا ہوا نرم گرم دن جس کی آمد ہی تمام انسانوں کے لیے ایک آس کا دیا ہے، امید کی شمع ہے جسے پا کے ہم سب انسانوں کی رگوں میں دوڑنے والا خون مزید روانی پکڑ لیتا ہے اور ہم سب اپنے اپنے کام نبٹانے اور اپنے اپنے ٹارگٹ پورے کرنے کے لیے سرپٹ دوڑتے ہیں, ہم سب ایسے ہی ہیں، دیس بھلے پچھم ہو یا پورپ، جھونپڑہ چاہے گھاس پھوس کا ہو یا ماربل سے بنا ہوا، ہماری آنکھوں کے ست رنگے خواب ہمیشہ ایک سے ہی ہوتے ہیں.
ہم سب کو پاپی پیٹ کا دوزخ بھرنے ے لیے سرکس کے سدھاے ہوے جانور کی طرح اپنے حصے کا تماشا، تماش بینوں کو دکھانا ہی پڑتا ہے اور اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام ہو جایں کسی بھی کارن تو پھر ہمیں بھوک کے بھوت سے کوی بھی نہیں بچا سکتا. خیر چھوڑیے اس پیٹ کی آگ کے رونے کو بایس اپریل 2025 کی ایک چمکیلی اور خوشگوار صبح مقبوضہ جموں کشمیر کے ایک پرکشش سیاحتی مقام پہل گرام میں سیاحت کے شوقین غیر ملکی سیاحوں پہ حملہ کر کے درندگی کا بد ترین مظاہرہ کیا جاتا ہے، ہنستے مسکراتے، زندگی کے جام کو قطرہ قطرہ کشیدنے والے، جینے اور جینے کی چاہ رکھنے والے اور خواب دیکھنے والے ایک نہیں دو نہیں تین نہیں، چھبیس لوگوں سے آنا فانا زندگی چھین لی جاتی ہے، کتنا بڑا گناہ ہے ناں ہنستے مسکراتے لوگوں کو زندگی زندگی کھیلتے لوگوں سے سانسیں چھین کے موت پہنا دینا تو جس کسی نے بھی یہ گھناونا قدم اٹھایا اس نے اپنے آپ کو انسانیت کے دایرے سے تو باہر کھینچ ہی نکالا اپنے آپ کو شیاطین کی صفوں میں پہلی قطار میں بھی شامل کیا پھر ہمسایہ ملک پہ دہشت گردی کے شبہ میں 1960 میں ہونے والا سندھ طاس معاہدہ منسوخ 23 اپریل 2025 کو منسوخ کر دیا جاتا ہے، گویا ایک اور برا کام، بھلا اللہ کی نعمتیں جو ہواوں، دریاوں، کی صورت ہیں انھیں آپ صرف شک کی بنا پہ مخلوق خدا سے کیسے چھین سکتے ہیں تو کربلا بھی اہل بیت کی نگاہوں کے سامنے بہتا تھا مگر یزیدیت نے اہل بیت کے بچے بچے پہ پانی کے ایک قطرے تک پہ پابندی لگا چھوڑی تھی
عجب یہ سیاست ہے
عجب یہ حکومت ہے
کربلا پہ بھی پہرے
طاس پہ بھی پہرے ہیں
اور بادشاہ سارے
اندھے ہیں یا بہرے ہیں
آپ کسی کمزور سے کمزور انسان سے بھی اس کے بنیادی حقوق روٹی، پانی چھین کے دیکھیے وہ آپ کو موت کے دھانے تک لے جانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گا اب بھلے یہ آہ ہو یا واہ اس کا انحصار اس کے وسائل کی دستیابی پہ ہے. اب پانی کی بندش کرنے والوں کی پروازوں کو اپنے وطن سے اڑنے سے منع کر دیا گیا پھر بارڈر پار سے دھمکیوں کے تحائف آنے شروع ہو گیے کہ ہم یہ کر دیں گے ہم وہ کر دیں گے ہم ملک خداداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے. اللہ رحم، لوگ باگ ڈر گیے ہر ہر سانس دعاؤں میں جت گءی یا اللہ پاک رحم کیا 1965،اور 1971 کے بعد ایک اور جنگ ہماری محرومیوں پہ مسلط کر دی جاے گی کیا ایک اور عذاب الہی پھر سے ہمارا منتظر ہے. جنگ عذاب ہوتی ہے، آگ ہوتی ہے اور موت ہوتی ہےخیرہوتے ہواتے چھ اور سات مءی 2025 کی درمیانی رات میں بارڈر کے اس پار سے نہتے شہریوں پہ ایک بج کر پندرہ منٹ پہ جنگی حملے کر کے باقاعدہ طور پہ ایک تیسری جنگ کا آغاز کر دیا جاتا ہے، سڑکوں پہ، مسجدوں میں جہاں نہتے شہر اپنے کام کاج اور عبادات میں مشغول ہوں ان پہ رات کے سناٹے میں حملہ کیا معنی رکھتا ہے آپ سب خود سمجھ دار ہیں اور پھر اس کے بعد متعدد حملے کیے گیے بچوں کے سالانہ امتحانات منسوخ ہوے، تعلیمی ادارے بند کر دییے گیے کاروبار زندگی تھم گیا، لوگ باگ گھروں میں محصور ہو گیے، بازار سنسان ہو گیے اور تمام ہسپتالوں میں ایمر جنسی نافذ کر دی گءی. چھوٹا سا ملک تقریباً پچیس کروڑ عوام، تباہ کن معیشت، دنیا کے بڑوں نے کہا ہم دو ممالک کے ذاتی معاملے میں نہیں آ سکتے. خیر جب بڑے اور مضبوط بھای کی زیادتیاں سر کے بالوں کو آنے لگیں تو چھوٹے بھای نے دس مءی کو نماز فجر کے بعد بڑے بھای کے گھر جا کر تقریباً تین گھنٹوں اور پینتالیس منٹ میں ایک ایسی کاروای کر ڈالی جسے انتہائی عقلمندانہ، مدبرانہ اور جدت پسندی کے تمام آلات اور ہنر مندیوں سے لیس ایک ایسا جنگی معرکہ کہا جا سکتا ہے جس نے بڑے بھای کے دماغ کی تمام غلط فہمیاں اور خماریاں یک مشت ختم کر دیں اور بڑے بھای نے دنیا داری کے نظام کے بڑے چوہدری صاحب کا در باقاعدہ کھٹکھٹایا کہ حضور جنگ بندی کروای جاے اور وہ چوہدری صاحب جو کل تک چھوٹے بھای کو مصیبت میں دیکھ کر یہ فتوے صادر فرما رہے تھے کہ دو ملکوں کی لڑائی میں ہمارا کیا کام؟ نے فوراً ہی امن کی فاختہ بنتے ہوے چھوٹے بھای سے جنگ بندی کی درخواست کر دی اور امن پسند چھوٹے بھای نے دس مءی 2025 کو شام تقریباً ساڑھے چار بجے بڑے بھائی کے ساتھ باہمی رضامندی سے جنگ بندی کی ہامی بھر لی، بارڈر کے دونوں اطراف رہنے والوں کی جان میں جان آی کہ شکر ہے جنگ ٹل گءی اور جان بچ گءی مگر بارہ مءی 2025 کو بڑے بھای کی بڑی سرکار نے پھر سے یہ ارشاد فرمایا کہ ہم حالت جنگ میں ہیں تو وہ جنگ بندی کی درخواست کیا آپ نے نیند میں چلتے ہوے کر دی تھی؟
بڑے لیڈر واقعی میں بڑے ہوتے ہیں اور ان کی باتیں بھی اسی لیے دل پہ اثر کرتی ہیں کہ دل کی بھٹی میں سچ کے بھنای میں رنگ پکڑتی ہیں، گاندھی جی نے کہا تھا کہ جس دن حکمرانوں کے سپوت جنگوں میں مرنا شروع ہو جایں گے، جنگیں بند ہو جائیں گی اور دنیا امن کا گہوارہ بن جاے گا، کیا ہی خوبصورت بات تھی تو اب دنیا کی عوام تقاضا کرتی ہے کہ یہ قتل و غارت یہ جنگیں ختم کی جایں ہمیں بھی اس امن، سکون اور خوشحالی سے جینے دیا جاے جس میں حکمران جیتے ہیں. اس چند روزہ جنگ میں گیارہ فوجی جوان اور تقریباً سو کے قریب بے گناہ عوام مارے گئے تو بارڈر کے بھلے اس پار ہوں یا اس پار، ہیں تو سارے گوشت پوست کے بنے ہوے، خوابوں کے تانے بانے میں گندھے ہوے مجبور و بے بس انسان ہی ناں اور انسانوں سے پیار کیجئے انھیں پیار کے جھولے میں سکون سے بیٹھ کے محبت کی لمبی لمبی پینگیں جھولنے دیجیے، حکمرانوں سے استدعا ہے کہ اپنے کارزارِ سیاست میں عام لوگوں کا بے ناجا اور ناحق قتل عام بند کیجئے.
بارڈر کے اس پار
وہی خوابوں کے آنگن
وہی کجلے کی دھار
وہی باپو کی چاہت
وہی ممتا کا پیار
چھوڑیے سیاست
حکومتی کاروبار
کیجیے لوگوں سے
جی بھر کے پیار
لوگ ایک جیسے ہیں
بارڈر کے دونوں پار
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Naureen drpunnamnayreen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International