زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے ۔
زندگی کو اُمیدوں پر کھڑا کریں خواہشوں پر نہیں، خواہشیں حسرتوں کو جنم دیتی ہیں جو کسک بن کر دل کے نہاں خانوں میں سسکتی رہتی ہیں اور یاد رکھیں اللہ تعالی آپ کو ایسی صورتحال میں نہیں ڈالتا جو آپ ہینڈل نہ کر سکیں جب کچھ سمجھ نہ آئے تو سب اللہ پر چھوڑ دیں یقین کیجئے دل سے سارا ڈر نکل جائے گا جب اپنا معاملہ مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا تو وہ بہترین طریقے سے اسے حل کر دے گا پتا ہے کلاک، گھڑی بند بھی ہو جائے نا تو بھی وہ دن میں دو بار صحیح وقت بتاتی ہے گویا کوئی بھی چیز مکمل بیکار ، بے مقصد نہیں ہوتی ،آپ کی آنکھیں صرف دوسروں کو دیکھنے کے لیے نہیں ہیں اپنے اندر جھانکنے کے لیے بھی ہیں دوسروں کی خامیاں خوبیاں ہی مت دیکھیں اپنے اندر کی خامیاں اور خوبیاں بھی تلاش کریں خوبیوں کو بہتر بنانے پہ کام کریں خامیوں کو ختم کرنے کی کوشش کریں دنیا میں کوئی بھی چیز بے مقصد نہیں ہے زندگی تو بالکل بھی بے مقصد نہیں ہے انسان جب تک زندہ ہے سانس لے رہا ہے اس کی اہمیت اور حیثیت باقی ہے مرنے کے بعد سب مردہ ،ختم، غائب تو جب تک سانس لے رہے ہیں تب تک جینا سیکھیں، دوسروں کی زندگی میں جینے کے اسباب نہ سہی اُمید ہی پیدا کرنا سیکھ لیں منفی سوچ اور خیال صرف وبال پیدا کرتا ہے ، رشتوں کو پامال کرتا ہے لہذا سوچ، فکر اور خیال کو مثبت رکھیں منفی کرنے کے لیے اور لوگ موجود ہیں نا خود کو نا اُمیدی میں نہیں اُمید میں برقرار اور زندہ رکھیں اپنے آپ کو شر کا نہیں خیر کا حصہ بنائیں ،شر پھیلانے، جی جلانے، دُکھ پہنچانے والے بنا مانگے آپ کو بہت مل جائیں گے اور ہر راستے ہر موڑ پر گرد کی طرح پھیلے ہوئے ملیں گے آپ کو اس گرد کے حصار سے خود کو بچا کر صاف شفاف اور روشن راہ پر لے کر چلنا ہے اس کے لیے صبر، برداشت، تحمل، مستقل مزاجی اور خوش اُمیدی کا احساس اور رویہ اپنانا نہایت ضروری ہے دنیا اپنے فائدے کا سوچتی ہے آپ بھی اپنے فائدے کا سوچیں، کوشش کریں عمل کریں لیکن دوسروں کو نقصان اور ایذا پہنچائے بغیر کیونکہ
” عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی”
ہماری نہ سہی شاعر مشرق کی اس بات پر تو آپ بھروسہ کریں گے نا ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نا اُمید اور مایوس بہت جلدی ہو جاتے ہیں جبکہ ہمارے پروردگار نے فرمایا ہے کہ “مایوسی کفر ہے”
ایک مسلمان کو مایوسی اور نا اُمیدی زیب نہیں دیتی بابائے قوم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ
“مسلمان مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا”
تو آپ یا ہم کیوں نا ُامید اور مایوس ہوتے ہیں؟
یاد رکھیں یہ دنیا امتحان گاہ ہے ہمیں یہاں موج مستی کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا یہاں سب کچھ ہماری مرضی اور منشا کے مطابق بھی نہیں ہوگا یہ کائنات جس ربّ کی تخلیق ہے اسے چلانے کا بیڑا بھی اُسی نے اُٹھا رکھا ہے اُسی کو زیبا ہے ساری بڑائی اور وہی ہمارے جینے مرنے کے فیصلوں پر ہماری خوشیوں، کامیابیوں اور ناکامیوں پر قادر ہے تو یہ کیا کہ ذرا سی ناکامی پر مایوسی کی بُکل مار کے بیٹھ گئے، ایک ہار پہ جیت کی اُمید چھوڑ بیٹھے، کوشش ہی ترک کر دی آئندہ کے لیے ،کوشش ہمیشہ بار آور ثابت نہیں ہوا کرتی مگر درست سمت سفر جاری رکھنے ، کوشش اور عمل برقرار رکھنے پر منزل اور کامیابی مل کر رہتی ہے شرط یہ ہے کہ آپ میں چلنے کا حوصلہ اور کوشش کرنے کی لگن قائم رہے۔ دنیا میں کچھ بھی بے مقصد نہیں ہے چرند پرند، دریا، سمندر، ندی نالے، پہاڑ، صحرا ریگستان، جنگل چشمے، وادیاں اللہ تعالی نے ہر چیز، ہر جاندار کو بامقصد پیدا کیا ہے اور انسان کو تو اشرف المخلوقات قرار دیا ہے تو بھلا انسان کی تخلیق بے مقصد، بےکار یا بے نتیجہ کیسے ہو سکتی ہے؟ زندگی ایک نعمت ہے اسے با مقصد مثبت عمل اور کامیاب بنانے کا ذمہ ہمارے سر ہے کوشش، محنت اور جدوجہد ہمارا فرض ہے ِبنا کوشش کے تو ناکامی بھی آپ کی طرف نہیں دیکھتی، دیکھا اُسی کو جاتا ہے جو مقابلے کی دوڑ میں شامل ہو نظر اُسی پر ٹھہرتی ہے جو لڑنے اور جیتنے کا عزم لے کر میدان میں اُترتا ہے پھر چاہے وہ ہار جائے مگر جیتنے والے کو مقابلے کا جواز وہی شخص فراہم کرتا ہے اور ہر مقابلہ جیتنے کے لیے نہیں کیا جاتا کچھ مقابلے بہت کچھ سیکھنے اور مقابل کو جیت کی خوشی دینے اور تجربہ حاصل کرنے کے لیے بھی کیے جاتے ہیں اُمید ہے آپ کوشش محنت اور مقابلے سے گھبرائیں گے نہیں عملِ پیہم سے زندگی کو کامیاب بنانے کے سفر میں شامل ہوں گے انشاء اللہ!
شکریہ
ُسباس گل
رحیم یار خان
❤️❤️❤️