دبستانِ دہلی اور دبستانِ لکھنؤ کے علاوہ، ہندوستان کی سرزمین پر ایک اور ممتاز دبستانِ ادب موجود ہے جو صوبہ اترپردیش کے ضلع اور شہر “بدایوں” سے منسوب ہے۔ دریائے سوت کے کنارے، بریلی سے تقریباً 44 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع یہ شہر، جو روہیل کھنڈ کا دل کہلاتا ہے، اپنی تاریخی و ثقافتی عظمت کے لیے مشہور ہے۔ بدایوں کی قدیم ترین تاریخ اس کے عروج و زوال کی گواہی دیتی ہے؛ مختلف سلطنتوں کے زیرِ تسلط رہنے والا یہ شہر، مغلوں کے زوال کے بعد روہیلوں کے قبضے میں آیا، پھر 1778 میں اودھ کے نوابوں نے اسے فتح کیا، اور 1801 میں برطانوی عملداری میں شامل ہو گیا۔ 1838 میں انگریزوں نے اسے ضلع کا درجہ دیا۔
بدایوں کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ یہ سلطان المشائخ محبوب الٰہی حضرت نظام الدین اولیاء کا آبائی شہر ہے۔ خواجہ حسن شیخ شاہی، خواجہ بدرالدین ابوبکر، اور شیخ شہاب الدین جیسی معتبر شخصیات بھی اسی شہر سے تعلق رکھتی ہیں، جن کی بدولت امیر خسرو نے اس کی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنانے کو ترجیح دی۔ بدایوں واقعی مردم خیز خطہ ہے، جس نے ادب، فن، اور روحانی اعتبار سے بے مثال شخصیات کو جنم دیا ہے۔
اس خطے نے ہمیں عبدالقادر بدایونی جیسے مورخ، عبدالحامد بدایونی جیسے عالمِ دین، اور رضیہ سلطانہ جیسی عظیم حکمران کے ساتھ ساتھ فانی بدایونی، شکیل بدایونی، دلاور فگار، محشر بدایونی، منشی دبئیی پرشاد سحر بدایونی، قمر بدایونی، ادا جعفری، عزیز بانو داراب وفا، اسد بدایونی، عرفان صدیقی، شبنم رومانی، عصمت چغتائی، بےخود بدایونی، ضمیر علی بدایونی، استاد ناصر حسین خان، استاد رشید خان، استاد غلام مصطفیٰ خان، استاد اقبال حسین خان بندہ نواز، اور حسیب سوز جیسے شاعروں، ادیبوں، اور فنکاروں سے نوازا ہے۔ یہیں کے فہمی بدایونی جیسے شاعر نے بھی بین الاقوامی سطح پر شہرت پائی اور آج بھی، اس شہر میں کئی باصلاحیت فنکار اور شاعر موجود ہیں۔
شکیل بدایونی کے 107 ویں یومِ پیدائش پر مجھے مرحوم فہمی بدایونی کی صدارت اور حسیب سوز کی موجودگی میں مشاعرہ پڑھنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس محفل کو دونوں کی موجودگی نے ایک خاص رنگ بخشا۔ میری حسیب سوز سے پہلی ملاقات ایک مشاعرے میں اور دوسری بار ان کے دولت کدے پر عیادت کے دوران ہوئی، جہاں انہوں نے اپنی زندگی، شاعری اور مختلف مشاہدات و تجربات پر گہری گفتگو کی۔ فہمی بدایونی، جو بدایوں کی فعال ادبی تنظیم “بزمِ ادب بدایوں” کے صدر تھے، سے بھی میری دو بار ملاقاتیں ہوئیں۔ پہلی بار دہلی کے مشاعرے میں ملاقات ہوئی، اور دوسری بار مجھے ان کی صدارت میں مشاعرہ پڑھنے کا موقع ملا۔ ہماری کئی گفتگوئیں فون پر بھی رہیں، جن میں انہوں نے اپنے ادبی سفر کی داستانیں سنائیں۔
بے حد افسوس ہے کہ ایسے عظیم فنکار اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن بدایوں شہر میں نئی نسل کے باصلاحیت شاعر اُبھر رہے ہیں۔ اس سرزمین کو اپنی نسلِ نو سے ادبی اور فنکارانہ ارتقا اور بقا کی بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
تشکر!
از قلم
پروین شغف
Leave a Reply