rki.news
ہمیں رسالپور پہنچے ہوئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ہمارے ایک آفس کلرک نے مٹھائی کا ڈبہ لاکر ہمیں دیا۔ اپنے بیٹے کی ولادت کی خوشی میں اس جملے کے ساتھ ” سر آپ بدایوں کے ہیں مجھے ریکارڈ سے پتہ چلا، آپ کے لیے بدایوں کے پیڑے لایا ہوں۔ بدایوں کے پیڑے ہم نے تعجب سے پوچھا۔ جی سر۔۔ ہمارے شہر مردان میں بدایوں کے پیڑوں کی دکان ہے۔ ہمارا اشتیاق ایک روز ہمیں مردان لے گیا۔ رسالپور سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ وہاں پہنچ کر پتہ چلا ” یو پی انڈیا کے شہر بدایوں کے مشہور حلوائی ممّّن کی اولاد میں سے ایک یہاں آکر آباد ہوگیا۔ بدایوں کے پیڑے آج بھی اسی
خُو بُو کے ساتھ پاکستان کے اس دورافتادہ علاقے کےشہریوں کے دہن میں اپنی مٹھاس گھول رہے ہیں۔ سچ ہے محبت پیار کی سرحدیں نہیں ہوتیں۔ آپ محبت سے ملیں جلیں جواب میں محبت ہی ملے گی”
“محبت سرحدوں میں قید ہو ممکن نہیں ایسا
یہ وہ خوشبو ہے جو دل کی فضا مہکاتی رہتی
ہے”
(ف ن خ)
“سرگودھا کیڈٹ کالج (1990-1988)”
1988 میں رسالپور اکیڈمی سے ہماری پوسٹگ پی ایف بیس مسرور ہوگئی۔چند ہفتوں بعد ہی کیڈٹ کالج سرگودھا کا بلاوہ آپہنچا۔ سرگودھا کیڈٹ کالج کو پبلک اسکول کا درجہ دیا جارہا تھا جہاں ساتویں اور آٹھویں پاس طالب علم بطور کیڈٹس لیے جانے تھے۔ ہم نے وہاں پہنچ کر ٹریننگ کنٹرول انچارج کا چارج سنبھالا ساتھ ہی اردو کلاسز بھی لینے لگے۔
“ایک ایمان افروز نظارہ”
سرگودھا کی گرمی الامان الحفیظ۔ ایک روز آفس سے چھٹی کے بعد ہم اپنی ویسپا پر گھر جانے کے لیے نکلے۔ لو کے تھپیڑے جھلسائے دے رہے تھے۔ ایسی سخت گرمی میں ایک ایمان افروز نظارے نے بہت متاثر کیا۔ سڑک کے کنارے سیمنٹ سے بنے فٹ پاتھ پر ایک عمر رسیدہ مزدور نماز کی ادائیگی میں مصروف تھا۔ تپتے ہوئے فرش پر جبینِ نیاز سجدے میں جھکی ہوئی تھی۔ ہم کچھ فاصلے پر رک کر چند لمحے اس مردِ مومن کو دیکھتے رہے۔ اسی کے ساتھ ہی مجھے فاتحِ خیبر و خندق حضرت علیؑ کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ اسلامی تاریخ کی کتابوں میں مستند راویوں سے روایت ہے کہ ایک جنگ میں حضرت علیؑ کے جسم میں تیر پیوست ہوگیا جو تکلیف کی شدت کے پیشِ نظر فوری نکالا نہ جاسکا۔ کہا گیا کہ جب مولا علیؑ نماز میں مصروف ہوں اس وقت وہ تیر نکال لیا جائے۔ نماز میں آپ کے انہماک و استغراق کا یہ عالم تھا کہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتے۔ چنانچہ یہی کیا گیا اور گہرائی میں پیوست تیر نکال لیا گیا۔ اللہ اللہ کیا شان ہے۔ اس ضعیف مزدور اور حضرت علی کا کوئی مقابلہ نہیں لیکن یہاں عشقِ خداوندی میں غرق کیفیات کا تذکرہ مقصود ہے:
ٹیک دے ماتھا اٹھا کر ہاتھ اب رب کے حضور
” جاگ جا خسروؔ نمازِ رخصتِ آفات پڑھ
(ف ن خ)
سرگودھا پوسٹنگ کےابتدائی چند ہفتے مکان ملنے تک ہم نے میس آباد کیا ہوا تھا۔ ایک روز کلاس میں گمان اور یقین کی وضاحت کے دوران ہم طالب علموں کو بتارہے تھے کہ اللہ پر ایسا یقین ہونا چاہیے جیسا ایک شیر خوار کو اپنی ماں پر۔ بچہ بھوکا ہے تو اسے پتہ ہے کہ میری ماں فیڈ کرادے گی۔ دھوپ ہے تو وہ اپنے آنچل کا سایہ کردے گی۔
لیکچر کے بعد میس میں کھانا کھاتے ہوئے بھی یہی خیال ذہن سے چپکا ریا۔
کمرے میں آکر اچانک ہمیں یاد آیا کہ جب خیرپور میرس میں صنعتی نمائش لگتی تو ہم سات بھائی بہن نمائش دیکھنے جاتے تھے لیکن ہزاروں کے اس مجمعے میں ہم گم نہیں ہوتے تھے کیونکہ ہمارا باپ ہمارے ساتھ ہوتا تھا۔ اس خیال کے ساتھ ہی ایک نظم کا نزول شروع ہوگیا:
“میں اپنے رب کی انگلی تھام کر۔۔۔۔۔”
میں جب چھوٹا سا بچہ تھا
تو اپنے باپ کی انگلی پکڑ کر
میلوں ٹھیلوں میں بِلا خوف و خطر
تفریح کرتا تھا
پسند آتی تھی جو بھی شے
اسی جانب لپکتا تھا
میں اپنی من پسند اشیاء سے جیبیں
خوب بھرتا تھا
نہ اندیشہ تھا لٹنے کا
نہ خدشہ راہ کھونے کا
خبر گیری کو
میرا باپ میرے ساتھ ہوتا تھا
وہ پہروں جاگتا تھا اور میں
بے خوف سوتا تھا
گزشتہ کل میں اور آج میں
بس فرق اتنا ہے
وہ بچہ باپ کی انگلی پکڑ کر
راہ چلتا تھا
پسند آتی تھی تھی جو بھی شے
اسی جانب لپکتا تھا
میں آنکھیں بند کرکے
مرضیء مولا پہ چلتا ہوں!
میں اپنے رب کی انگلی تھام کر
گھر سے نکلتا ہوں!!
(فیروز ناطق خسروؔ)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کورنگی کریک، فیصل بیس، ائر ہیڈ کوارٹرز۔اسلام آباد”(97-1990)
سرگودھا کے بعد ہماری پوسٹنگ پی اے ایف بیس کورنگی کریک، فیصل بیس اور پھر فلائٹ سیفٹی ڈاریکٹریٹ، (ائر ہیڈ کوارٹرز) ہوگئی بطور اسٹنٹ ڈاریکٹر ایڈمن اینڈ ایجوکیشن۔ ایک میگزین “ایروٹیکنیشن” (اردو) کی ادارت بھی ہمارے ذمہ تھی۔ رہائش اسلام آباد کے سیکٹر E9 میں تھی۔ مرگلہ ہلز کے دامن میں۔ شام کو ہم اپنے سیکٹر سے واک کے لیے نکلتے نیوی کے سیکٹر E8 سے گزرتے ہوئے مرگلہ ہلز والی سڑک سے ہوتے ہوئے اپنی رہائش گاہ واپس پہنچتے۔ تین سال ہمارا یہی معمول رہا۔ بہت سی غزلیں نظمیں ہم نے مرگلہ ہلز کے پاس سے گزرتے ہوئے کہیں:
“نظم جوگنگ”
سرسبز و شاداب پہاڑی کے دامن سے
روز سویرے
میں اور میرا نوکر
گھر سے باہر جاتے ہیں
اور مخالف سمتوں سے ہم آتے ہیں !
آتے جاتے پھولوں کی متوالی خوشبو
من میرا موہ لیتی ہے !
نرم ہوا کا جھونکا
نیند میں ڈوبی آنکھوں میں پھر
تازہ سپنے بنتا ہے !
دور تلک پھیلا سنانا
دل کی دھڑکن سنتا ہے!
میرا نو کر پیٹ کی خاطر
اپنی بو جھل پلکوں سے
رستے کے کنکر چنتا ہے!
میرے گھر مزدوری کر کے
پیٹ کا دوزخ بھرتا ہے!
روز سویرے میں اور میرا نوکر
گھر سے باہر جاتے ہیں
اور مخالف سمتوں سے ہم آتے ہیں !!
(ف ن خ)
(مرگله ہلز، اسلام آباد)
ا
اسلام آباد اور پنڈی کے ادبی حلقوں میں بھی شرکت ہوتی رہیں۔ وہاں کے شعراء ادبا نے کھلے دل سے ہمیں خوش آمدید کہا۔ ان کا شکریہ۔ تفصیل اگلی قسط میں(ان شاءاللہ)
یہ خوبصورت تین سال پلک جھپکتے میں گزرگئے۔
اس دوران ایک ایمان افروز واقعہ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اسلام آباد آفیسرز میس میں بہت بڑے پیمانے پر میوزیکل شو کا اہتمام کیا گیا۔ (جو ایک عام سی بات تھی). ملک کے ممتاز فنکار مدعو تھے۔ روائتی غزل گو اور پاپ سنگرز کی آمد کا سلسلہ جاری تھا۔ سینئر آفیسرز / سویلین کو خوش آمدید کہا جارہا تھا۔ اس گرینڈ میوزیکل شو کا اہتمام کھلی جگہ پر کیا گیا تھا۔ جنگ اخبار میں ایک چھوٹی سی یہ خبر بھی شائع ہوئی تھی۔ “فاطمہ جناح پارک میں آج تبلیغی جماعت کی طرف سے شبِ گریہ منعقد کی جارہی ہے”۔
میوزیکل شو مہں جونیئر آفیسر مدعو نہیں تھے۔ ہم اپنے ٹیرس ہی سے جشن کا نظارہ کر رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ سڑک کے ایک طرف راگ و رنگ کا طوفان برپا ہے اور دوسری طرف شبِ گریہ میں گریہ و آہ وزاری کا شور برپا ہے۔ دونوں طرف اللہ کے بندے ہیں۔ اتنے میں بہت زور سے بادل گرجے، کھڑکیوں کے شیشے بج اٹھے۔ مرگلہ ہلز کی پہاڑیوں کی طرف سے بادل امنڈ رہے تھے۔ چند لمحوں میں گرج چمک کے ساتھ باد و باراں کا طوفان ٹوٹ پڑا۔ میس کی طرف عجیب منظر نظر آیا۔ لوگ اِدھر سے اُدھر بھاگ دوڑ میں مصروف تھے۔ ڈیوٹی پر موجود اہلکار واپس جانے والی گاڑیوں کے لیے سیٹیاں بجا بجا کر راستہ بنا رہے تھے۔ میس ویٹر چھتریاں اٹھائے مہمانوں کی طرف بھاگ رہےتھے ۔ ٹی وی اینکر اسکرین پر جو منظر دکھا رہے تھے وہ مضحکہ خیز کے ساتھ ساتھ عبرتناک بھی تھا۔ میکب بہتے چہروں کے ساتھ خواتین گلوکارئیں اور فنکار اس مصرع کی منہ بولتی تصویر نظر آرہے تھے:
“دیکھو مجھے جو دیدہء عبرت نگاہ ہو”
اخبارات میں اس طوفان کی رپورٹنگ کچھ اس طرح کی گئی “اس قسم کے پروگرامز منعقد کرنے سے پہلے بڑے ادارے موسمیات سے رابطے میں رہتے ہیں۔ کسی کو بھی ایسے کسی ہمنگام کی کوئی پیشگی اطلاع نہیں تھی۔ نجانے کہاں سے بادل کا ایک ٹکڑا اس طرف آنکلا”۔
اسی کے ساتھ اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر اور بھی تھی کہ تبلیغی جماعت کی شبِ گریہ اس بادوبارں کے طوفان میں بھی جاری رہی۔ اللہ اللہ:
“سورہ روم”
”اللہ“ ہی ہے جو ہواؤں کو بھیجتا ہے اور وہ بھاری بادل اٹھاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے بادلوں کو آسمان میں پھیلاتا ہے اور انہیں ٹکڑوں میں تقسیم کرتا ہے، پھر تُو دیکھتا ہے کہ بارش کے قطرے بادل میں سے ٹپکے چلے آتے ہیں۔”
“پی اے ایف ائر وار کالج کراچی: قبل از وقت ملازمت سے سبکدوشی (1998-1997) “
1997 میں ہمارا تبادلہ بحیثیت رجسٹرار پی اے ایف ائروار کالج، کراچی ہوگیا۔
1998 میں ابا کی بیماری کے سبب ہم نے ملازمت سے قبل از وقت سبکدوشی کا فیصلہ کرلیا گو کہ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا لیکن اللہ نے مدد کی۔ اس کے بعد بھی ہم نے 2008 تک مختلف اداروں میں اہم مناصب پر ملازمت کی:
تِل جو تلوے میں ہے اک میرے نمایاں خسروؔ
اس کی یاری ہے بہت گردشِ ایام کے ساتھ
“نظم و نثر پر مبنی کتب کی اشاعت”
2008 کے بعد ہم نے مزید ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ 1962 سے اب تک جتنا کچھ لکھا ہے اسے کتابی شکل میں شائع کیا جاسکے۔ اللہ کے کرم سے اب تک نظم و نثر کی جملہ تیرہ کتب شائع ہوچکی ہیں:
مال و دولت کے نام پر گھر میں
اک قلم اور کتاب رکھتے ہیں
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے
Leave a Reply