تازہ ترین / Latest
  Wednesday, January 22nd 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

بدگمانی ایک بیمار معاشرہ کی علامت

Articles , Snippets , / Wednesday, January 22nd, 2025

(تحریر احسن انصاری)

بدگمانی، یا دوسروں کے بارے میں منفی سوچ اور شک رکھنا، ایک ایسا رویہ ہے جو معاشرتی بیماری کی علامت ہے۔ یہ کسی بھی معاشرے کی تباہی اور بگاڑ کی بنیاد بن سکتا ہے۔ بدگمانی نہ صرف رشتوں کو کمزور کرتی ہے بلکہ معاشرتی اتحاد اور بھائی چارے کو بھی متاثر کرتی ہے۔ بدگمان معاشرہ اندرونی طور پر کمزور ہوتا ہے، جہاں اعتماد کی کمی اور اختلافات زیادہ ہوتے ہیں۔ بدگمانی کے پیدا ہونے کے کئی عوامل ہیں جن میں تعلیم کی کمی بدگمانی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ جہاں لوگوں کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہ دی جائے، وہاں وہ دوسروں کے بارے میں غیر ضروری شکوک پیدا کرنے لگتے ہیں۔ شعور کی کمی افراد کو غیر حقیقی اور منفی خیالات کی طرف مائل کرتی ہے۔ معاشرے میں حسد اور غیر ضروری مقابلے کی فضا بدگمانی کو فروغ دیتی ہے۔ جب لوگ دوسروں کی کامیابیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یا انہیں برداشت نہیں کرتے، تو بدگمانی جنم لیتی ہے۔

سوشل میڈیا اور افواہوں کے ذریعے غلط معلومات کی ترویج بدگمانی کا ایک بڑا ذریعہ بن چکی ہے۔ تصدیق کیے بغیر باتوں کو آگے پھیلانا لوگوں کے درمیان اختلافات اور شکوک کو ہوا دیتا ہے۔معاشرتی اور ذاتی تعلقات میں اعتماد کی کمی بدگمانی کو جنم دیتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے، تو وہ ہر بات کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔اگر معاشرے میں عمومی طور پر منفی سوچ اور رویے پروان چڑھ رہے ہوں، تو بدگمانی ایک عام رویہ بن جاتی ہے۔ لوگ دوسروں کے اچھے اعمال میں بھی برائی تلاش کرنے لگتے ہیں۔ بدگمانی کے اثرات نہایت مہلک ہوتے ہیں، جو انفرادی اور اجتماعی سطح پر نمایاں نظر آتے ہیں۔بدگمانی افراد کے درمیان فاصلے پیدا کرتی ہے۔ جب ایک شخص دوسرے کے بارے میں منفی خیالات رکھتا ہے، تو یہ اعتماد کی کمی کا باعث بنتا ہے۔ نتیجتاً، رشتے کمزور ہو جاتے ہیں اور محبت ختم ہو جاتی ہے۔ بدگمانی معاشرے میں اختلافات اور تنازعات کو فروغ دیتی ہے۔ یہ لوگوں کو ایک دوسرے سے دور کر دیتی ہے اور ایک پرامن معاشرے کو انتشار کی طرف لے جاتی ہے۔ بدگمانی سے نفرت اور دشمنی بڑھتی ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے کے ارادوں اور اعمال پر شک کرتے ہیں، تو یہ رویہ دلوں میں دوریاں اور نفرت پیدا کرتا ہے۔ بدگمانی کا شکار افراد اکثر ذہنی دباؤ میں مبتلا رہتے ہیں۔ یہ رویہ انہیں منفی سوچ کے دائرے میں قید کر دیتا ہے، جس سے ان کی ذاتی زندگی اور ذہنی سکون متاثر ہوتا ہے۔

بدگمانی معاشرتی ترقی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ نہیں کرتے، تو اجتماعی فیصلے اور ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں۔ بدگمانی کے منفی اثرات کو کم کرنے اور معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے مثبت اقدامات کی ضرورت ہے۔ لوگوں کو صحیح تعلیم اور شعور فراہم کرنا بدگمانی کے خاتمے کے لیے ضروری ہے۔ تعلیم لوگوں کو یہ سکھاتی ہے کہ وہ دوسروں کے بارے میں مثبت سوچیں اور ہر بات کی تحقیق کریں۔ معاشرے میں تحمل اور رواداری کے رویے کو فروغ دینا ضروری ہے۔ لوگوں کو یہ سمجھانا چاہیے کہ اختلافات کو قبول کرنا اور دوسروں کے نقطہ نظر کا احترام کرنا اہم ہے۔ افراد کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے کھلی بات چیت اور شفافیت کو فروغ دینا ضروری ہے۔ جب لوگ ایک دوسرے سے بات کریں گے، تو بدگمانی خود بخود ختم ہو جائے گی۔ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر افواہوں کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے جائیں۔ لوگوں کو یہ سکھایا جائے کہ وہ ہر بات کی تصدیق کریں اور غلط معلومات کو نہ پھیلائیں۔

اسلام میں بدگمانی کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“اے ایمان والو! بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گناہ ہیں۔” (الحجرات: 12)
یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے تاکہ معاشرہ محبت اور ہم آہنگی کا گہوارہ بن سکے۔اسلامی تعلیمات میں بدگمانی کو ایک برائی قرار دیا گیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“بدگمانی سے بچو، کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔” یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ بدگمانی نہ صرف گناہ ہے بلکہ یہ جھوٹ اور فتنے کا ذریعہ بھی ہے۔ اسلام ہمیں دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھنے، تحقیق کرنے، اور افواہوں سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلامی معاشرتی اصولوں کا مقصد لوگوں کے درمیان اعتماد اور محبت کو فروغ دینا ہے۔ اگر ہم ان اصولوں پر عمل کریں، تو بدگمانی اور اس کے اثرات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ بدگمانی ایک بیمار معاشرے کی نشانی ہے جو اسے اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ یہ منفی رویہ نہ صرف افراد کے درمیان فاصلے پیدا کرتا ہے بلکہ معاشرتی ترقی اور اتحاد کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔ اس برائی کے خاتمے کے لیے تعلیم، شعور، رواداری، اور اعتماد کو فروغ دینا ضروری ہے بدگمانی کا علاج مثبت سوچ، تحقیق، اور دوسروں پر بھروسے سے ممکن ہے۔ اگر ہم اسلامی تعلیمات کو اپنائیں اور دوسروں کے بارے میں اچھا گمان رکھیں، تو ایک مثالی اور پرامن معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے۔ ایک صحت مند معاشرہ وہی ہے جہاں محبت، اعتماد، اور بھائی چارے کی فضا قائم ہو۔ یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب ہم بدگمانی جیسی منفی عادتوں کو چھوڑ کر دوسروں کے بارے میں مثبت رویہ اپنائیں۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International