Today ePaper
Rahbar e Kisan International

برداشت اور رواداری۔حسنِ زیست۔۔

Articles , Snippets , / Sunday, April 6th, 2025

rki.news

تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
پیارے قارئین!زندگی رب کریم کی طرف سے مقدس امانت ہے۔اس کی خوبصورتی اور دلکشی ان اصولوں کے اپنانے میں ہے جو اسلامی تعلیمات سے حاصل ہوتے ہیں۔برداشت اور رواداری کا شمار بھی ان محاسن میں ہوتا ہے جن کی زینت اور خوبصورتی سے زندگی کی لطافت قائم رہتی ہے۔ماہرین کے مطابق برداشت کی صلاحیت عطیہ الٰہی ہے جس سے انسان کی قوت خیال میں مثبت تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔اس ضمن میں جائزہ لیا جاۓ تو سماج میں قوت برداشت میں کمی واقع ہونے سے مسائل جنم لیتے ہیں اور عدم برداشت کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے جو سماج کی خوبصورتی اور استحکام کے لیے کوئی اچھا شگون نہیں۔
عد حاضر میں اعتدال پسندی ،رواداری اور برداشت صرف اخلاقی فریضہ ہی نہیں، سیاسی ،سماجی اور قانونی تقاضوں کے مطابق ایک ضرورت بھی ہے۔ ماہرین کے نقطہ نظر سے رواداری ایک ایساجذبہ ہے، جس میں ہم نہ کسی سے محبت کرتے ہیں نہ نفرت، بلکہ ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہیں۔عام فہم لفظوں میں یہ ہے کہ آپ ایسے لوگوں کو برداشت کریں، جنہیں آپ مختلف وجوہات کی بناء پر ناپسند کرتے ہیں۔ رواداری واحد ایسی خوبی ہے جو نہ صرف مختلف قوموں اور جماعتوں کو عالمی سطح پر انسانی تہذیب و تمدن کی تعمیر نو اور تشکیل نو کے ضمن میں اکٹھے مل کر کام کرنے کا موقع فراہم کر سکتی ہے بلکہ ایک ہی خطہ خاک میں مختلف نظریات رکھنے والے افراداور لوگوں کو متحد کر کے قومی مقاصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاست بھی خدمت خلق میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔سیاسی رواداری تو سماج کی جان ہوتی ہے۔، مذہبی ،تہذیبی اور ثقافتی لحاظ سے مختلف سوچ کے حامل افراد اس دنیا میں اپنے نظریات و عقائد پر صرف اسی صورت میں آزادی سے عمل پیرا ہو سکتے ہیں، جب وہ دیگر افراد کو ان کے نظریات و عقائد پر عمل کرنے کی آزادی دیں ۔یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو لوگ دل کے دامن میں برداشت اور رواداری کے پھول رکھتے ہیں ان کی زندگی امن اور محبت کا گہوارہ ہوتی ہے۔ایسے لوگ زندہ ہوں تو بزم زیست کی رونق اور بزم فانی سے چلے جائیں تو یادوں کا حسین سلسلہ۔اس ضمن میں ضرور اس بات پر توجہ کی ضرورت ہے۔بقول شاعر:-
صاحبِ نظراں! نشہ قوت ہے خطرناک
اس کے تناظر میں جائزہ لیا جاۓ تو معاشرے میں میانہ روی اور حسن اخلاق سے ایک شاندار تبدیلی رونما ہوتی ہے۔
ماضی اور حال کا موازنہ کریں تو عصر نو میں عالم کائنات میں افراد کے رویوں میں عدم برداشت کا عنصر زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس صورتحال کے اسباب جھوٹ، ظلم اور نا انصافی، چور بازاری، اقربا پروری، مہنگائی، بے روزگاری اور افلاس، ذرائع ابکاغ میں نشر ہونے والے پر تشدد ڈرامے بڑوں اور بچوں کی نفسیات پرمنفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ سماج میں ان کے منفی اثرات سامنے آرہے ہیں اور افراد معاشرہ میں دوریاں پیدا ہونے سے خود کو غیر محفوظ بھی محسوس کر رہے ہیں۔
ایک جائزہ کے مطابق عصر حاضر میں عوام و خواص کی اکثریت عدم برداشت کا شکار ہیں۔صورتحال تو اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ افراد معاشرہ نفسیاتی مریض بن چکے ہیں۔ معمولی سی بات پر لڑائی اور جھگڑے اور اختلافات اس قدر کہ سماجی دوریاں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں، ۔لوگ معمولی سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ۔ قتل و غارت گری، دہشت گردی، فرقہ واریت اور عدم برداشت کے واقعات میں بے پناہ اضافہ ہونے سے زندگی بوجھ کا روپ دھار چکی ہے ۔اس کی وجہ کرپشن، بھوک و افلاس،بے روزگاری ،جہالت ،اور مسلکی جھگڑے بھی ہیں۔
اس ضمن میں علماۓ کرام،اساتذہ،صحافی ،ادیب و سیاسی رہنما ملک سے عدم برداشت کے خاتمے کے لیے کردار ادا کر سکتے ہیں ،
میانہ روی ۔اعتدال پسندی، رواداری، مستقل مزاجی ، صبروتحمل،عفو و درگزر اور انصاف وہ اوصاف حمیدہ ہیں جن سے سماج اور معاشرہ میں امن و سکون کا سورج طلوع ہوتا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ اسلامی طرز زندگی کی روشنی میں زندگی بسر کریں، اگر کوئی خطا ہو جاۓ تو کھلے دل سے معافی کا تقاضا کریں ۔
عدم برداشت تو سلگتا مسئلہ بن چکا ہے جس کی وجہ سے سماج میں بدنظمی، افراتفری ، منفی سوچ ، معاشرتی استحصال، لاقانونیت اور ظلم و جبر اورعداوت جیسے ناسور سماج کی بنیادوں کو عدم استحکام کا شکار کرتے ہیں، یہ بات تو مسلمہ ہے کہ عدم برداشت اور انتہا پسندانہ سوچ سے آج کا انسان معاشرے میں چینی، اضطراب ،جلد بازی، حسد، بغض ،احساس کمتری اور ذہنی پریشانی کا شکار ہے۔ اس وقت سوچ اور فکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔یہ عمل تعلیم و تربیت سے ممکن ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International