Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بس آپ سے ملنے آے ہیں

Articles , Snippets , / Sunday, August 3rd, 2025

rki.news

تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
مشہور زمانہ شعر
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا. چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
یہ شعر آج سے تقریباً ایک صدی قبل جگر مراد آبادی نے لکھا تھا، لیکن صادق ہم لوگوں پہ آتا ہے یا پھر عین ممکن ہے کہ اس زمانے بلکہ ہر زمانے کے لوگ ہی اتبے بے حس، تھوڑ دلے اورکمینے ہوتے ہیں کہ وہ ہر کس و ناکس کا خون جونکوں کی مانند چوستے پھرتے ہیں، سانپوں کی مانند ایک دوسرے کو ڈسنے سے بھی باز نہیں آتے، جھوٹ فریب کی دنیا میں جھوٹ فریب کا بازار گرم رکھنے کو ہی زندگانی کی کامیابی سمجھتے ہیں. تو کیا وہ جو فاتح عالم تھے جنہیں رحمت اللعالمین کا لقب عطا ہوا تھا وہ کیوں سادہ اور فقر و فاقہ والی زندگی کو پسند ہی نہ فرماتے تھے، ترجیح بھی دیتے تھے، ہاں پیار، محبت، خلوص، امن اور بھائی چارے کا درس وہ اپنی امت کو ہمیشہ دیتے رہے اور خطبہ حجتہ الوداع میں ہمارے پیارے نبی کریم نے غلاموں اور خواتین کے حقوق کے بارے میں واضح پیغام دیا کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور اپنے ملازمین کا خیال رکھو، تو کبھی کبھی بہت سکون محسوس ہوتا ہے اور اچھا لگتا ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے زندگانی گزارنے کا ایک مکمل لایحہ عمل کتاب اور رسول کی شکل میں عطا کیا، کیا ہو گیا جو ہم زندگی کی دوڑ میں اتنا تیز بھاگے کہ لایحہ عمل سے منہ موڑ لیا اور رسم و رواج کی اپنی ہی ایک الگ دنیا بسا لی.کبھی لوگ لوگوں سے ملتے تھے، ایک دوسرے پہ جان نثار ہوتے تھے، ایک دوسرے پہ محبتیں نچھاور کرتے تھے، اپنی زندگی کے چند پل دوسروں پہ نچھاور کرتے تھے، کبھی ہنستے تھے کبھے روتے تھے زندگی کے پل ایک دوسرے کی سنگت میں گزارتے تھے اور شاداں و فرحان رہتے تھے، اب تو نگوڑ ماری نفسا نفسی نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا، اور اس مینی مینی کے چکر نے ہم انسانوں کو اتنا تنہا کر دیا ہے کہ تنہای بھی اس شاندار تنہائی کو دیکھ کر نوحے پڑھتی ہو گی،
کسی زمانے کی داستاں ہے یہ
لوگ، لوگوں سے پیار کرتے تھے
دم بھی بھرتے تھے
اور مرتے تھے
اب عجب سا زمانہ ہے پونم
لوگ لوگوں سے جاں چھڑاتے ہیں
صرف مطلب ہو تو بلاتے ہیں
عرصے سے حمنہ زیدی ایک این جی او چلا رہی تھی، لوگوں کے کام کرنے کی دھن نے حمنہ کو اپنے وجود، اپنی ضروریات اور اپنی خواہشات سے بالکل ہی غافل کر چھوڑا تھا، تو حمنہ کو بھی پتا ہی نہ چلا کہ کب جوانی کی بہاریں رخصت ہویں، کب اس کے کالے سیاہ بالوں میں چاندی کے تار چمکنے لگے، کب اس کی کمان کی طرح سیدھی کمر خمیدہ ہوی، ہاں شاید دو دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ عرصہ بیت چکا ہو مگر حمنہ کو تو ایسے ہی محسوس ہوتا تھا گویا ابھی پل دو پل ہی کی بات ہو مگر یہ پل دو پل جو حمنہ زیدی نے اہنے تن من پہ جھیلے تھے اور اب وہ راہ گزار حیات میں بالکل یکا و تنہا تھی؛اور اس تنہای میں کوی بھی اس کا پرسان حال نہ تھا. حمنہ زیدی کی یہ آخری عمر والی تنہائیاں بڑی ہی زور آور، بڑی ہی جی دار اور بڑی ہی تناور تھیں، اصل میں یہ وہ تناور شجر تھے جن کے سایے سے فیضیاب یونے والے تو بہت تھے ہاں ان کے دکھ درد، ان کی تکالیف کو محسوس کر کے ان کے زخموں پہ پھاہے رکھنے والا کوی نہ تھا، تو حمنہ زیدی بھی ایسا ہی ایک شجر سایہ دار، ایک مہربان ہستی تھی جو دنیا کو صرف دینے ہی آی تھی وہ صبح بھی باقی ساری صبحوں کی طرح دلنشین اور چمکدار تھی، حمنہ زیدی جو اب ہچھتر سالہ باوقار بڑھیا کے روپ میں تھیں نے صبح پورے نو بجے اپنے آفس میں قدم رکھا یہ وقت کی پابندی تو جیسے حمنہ زیدی کے ساتھ ہی پیدا ہوی تھی، ابھی انھیں آفس میں بیٹھے چند ہی منٹ ہوے تھے کہ ان کی ایک پرانی ملازمہ نے اندر آنے کی اجازت طلب کی سلام دعا کے بعد آنے والی پچاس پچپن سالہ خاتون جن کی غربت ان کے پہناوے سے بری طرح عیاں تھی نے جھجھکتے ہوے کہا حمنہ جی میں تو صرف آپ کے دیدار کرنے آی ہوں، میں تو صرف آپ ہی سے ملنے آی ہوں، ایک جملے نے مدھم ہوتے ہوے دیے میں امید کی ایک رمق چھوڑی اور حمنہ زیدی کو لگا کہ ان کی سانسیں اچانک ہی ہموار ہو گءی ہیں، ہاے کسی چاہنے والے کی چاہت تو زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہوتی ہے، جیون دھارا ہوتی ہے، حمنہ زیدی کو اس ایک پل میں کم ازکم ایسا ہی لگا کہ زندگی بہت حسین ہے، ان کی خمیدہ کمر کا خم بھی نکل گیا تھا، ان کے چاندی بال بھی ایک پل کے لیے کالے سیاہ ہو گیے تھے ان کی آنکھوں میں امیدوں کے دییے اچانک ہی بہت روشن ہوے تھے مگر کاش یہ ایک پل ٹھہرجاتا، رک جاتا تو حمنہ زیدی بھی اسی خوشی میں اس جہان سے اس جہان نہ ہو جاتیں، مگر ہاے ری دنیا داری اور اس دنیا کی ضروریات آپا صفوراں نے چند پل چپ رہنے کے بعد ہی اپنی ضروریات کی ایک لمبی لسٹ حمنہ زیدی کے گوش گزار کر دی، جس میں چھوٹی بیٹی کے جہیز سے لیکر بر تک، شوہر کے بای پاس سے بہو کی ڈلیوری تک کے تمام اخراجات کی ایک لمبی فہرست تھی اور حمنہ زیدی جو اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ اس کی پرانی ملازمہ آج اپنی تمام ضروریات کو پس پشت ڈال کر صرف اور صرف اسی سے ملنے آی ہے، اپنی موت آپ مر گیی اور حمنہ زیدی جو آپا صفوراں سے پوچھنے ہی والی تھی کہ آپا آج میرے ساتھ چاے پکوڑے کھاو گی یا دھی بھلے نے آخری سانس لی اور کرسی پہ ہی جھول گءی. اس کی بے جان آنکھوں میں ایک حسرت تھی بنا کسی لالچ کے چاہے جانے کی، اور ایک سوال تھا پوری دنیا کے مطلبی لوگوں سے کہ کبھی بغیر ضرورت، بغیر مطلب کے بھی کسی چاہنے والے سے مل. لیا کرو. تھا، ہاے ایک حسرت چاہے جانے کی حسرت
لے کے حمنہ زیدی جو انتہائی خوبصورت اور بہترین انسان تھی لے کے اس دنیا سے چلی گءی کہ کوی تو اسے بغیر کسی مطلب کے آ کے ملتا کوی تو اس جھوٹ کے لبادے کو پاش پاش کر دیتا کہ کسی کام سے نہیں، صرف اور صرف بس آپ سے ملنے آے ہیں.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
punnam.naureenl@icloud.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International