rki.news
ممتاز دانشور سجاد ندیم اسسٹنٹ کمشنر کا سانحہء ارتحال
=================== 20اپریل کی دوپہر حلقہ رفقاء میسور واٹس ایپ پر امیر مقامی جناب اسلم صاحب نےخبر دی یہ خبر میرے دل کو جھنجھوڑ کر مغموم کر دی۔ہائے اللہ سچ ہے کیا؟ کیسے معلوم کروں کس سے معلوم کروں ۔کچھ دیر بعد خبر نے یقینی ثابت کردی . معلوم ہوا سجاد بھائی عشاء کی نماز سے واپسی پر راستے میں اچانک حادثہ ہوا ۔دماغ پر گہری چُوٹ پڑ نے سے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں ۔یہ سننا ہی تھا میری فکری قوت کے بادل چھا گئے یاد ماضی کی اک چنگاری اٹھی ۔جو میری دادی ماں اور نانی ماں کی زبانی اور میرے والد کے بول جو آج آپ کو سنا رہا ہوں ۔سجاد صاحب کی پیدائش 17دسمبر 1950بنگلور میں ہوئی ۔ان کے والد ضیاءاللہ قلمی نام ضیاء میر ریاست کرناٹک کے نامور صحافی انکا تعلق کنگل ضلع تمکور سے ہے ۔سجاد صاحب کی والدہ کا نام طاہرہ خانم جو اچانک اللہ کو منظور تھا مالک حقیقی سے جا ملی ۔سجاد صاحب کا بچپن بنا ماں کی آنچل کا بے سہارا تھا۔ اور ماں کی ممتا اور پیار سے محروم رہے ۔دوستو بقول علّامہ اِقبال “مرد کا ساز عورت کے ساز سے نغمہء پیدا کرتا ھے ۔عورت کے نیاز سے مرد کا ناز دوبالا ہوجا تا ہے ادھر باپ”ضیا میر کی رفیقِ حیات کا داغ مفارقت دے جانا، زندگی میں گھنگھور گھٹا، اورادھر فرزند ارجمند سجاد کے پالنے پوسنے کی ذمّہ داری و فکر ضیاء صاحبِ کے لئےیہ سنگھرش عزیز تھی ۔۔ملت ماؤں کی تکریم ہی سے ہے ۔اس کے بغیر زندگی کا کام ادھورہ ره جاتاہے ۔علّامہ اِقبال نے کہا ماں کی شفقت پیغمبر کی شفقت کے مانند ہے ۔يوں کے وہ بھی اقوام کے کردار کی تعمیر ھوتی ہے ۔زندگی کے لئے ضروری تھا ضیاء صاحب نے دوسری شادی پر راضی ہوئے۔ زمانے کا دستور ہے ،وہ بہت پر پیچ نظروں سے دیکھتا ہے ۔اور دوسرے نکاح کے لئے کون باپ راضی ہوگا ،اپنی کنواری بیٹی کے ہاتھ پیلے کردے۔ جو اک بچے کا باپ ہے ۔کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔میری نانی اماں کے پڑوسن ڈاکٹر وزیر عرشی جو یونانی طبیب اور ریاست کے مایہ ناز شاعر ،وه چتردرگا ڈسٹرکٹ۔ چلکرے تعلق میں ڈیوٹی کر رہے تھے ۔ان کا گھر پڑوسی کم دوستی کا مسکن اور اس سے زیادہ اِک خاندان بن گیا تھا ۔ خونی خاندانی رشتہِ سے ذیادہ چاہت و محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ۔ ڈاکٹر وزیر عرشی نے ضیاء صاحب کو اپنی بڑی بیٹی افروز جبین کو رشتہِ ازدواج کے بندھن میں باندھنے کو منظور کرلیا۔اور اپنی جگر کے ٹکڑے کوضیاء صاحب کو دینا مناسب سمجھا یہ اِتنا آسان نہیں تھا۔ایسا بہترین لڑکا کون ہو سکتا ہے ۔باپ وزیرِ عرشی نے دیکھا ضیاء صاحب کا ستارہ بلندی پر ہے قابلیت دیکھی ، بس وارے نیارے فدا ۔اور۔وہ کیوں نہیں حلال ذریعہ ہے سعادت گھرانہ ہے، بس زمانہ ایسا ہی تھا۔ اس وقت حلال کمائی اور نیک پیشہ پر نظریں ھوتی ،تو لڑکا الحمدللہ ،مگر آج کا دور ہی الگ ہے ۔البتہ تحریک کے لوگوں کی بات الگ ہے، یہ شادی chalkere میں ہوئی دولہے کے دوستوں میں شامل پہلے دوست”مرحوم حبیب احمد خاں انجنئیر ان کے گھر انکے فرزند کو الطاف صاحب رکن جماعت میسور کی بیٹی بیاہی گئی، بہو ہے۔دوسرےدوست ہائی اسکول ہیڈماسٹر۔حمید خاں ۔تیسرے دوست۔محمود ایاز، سالار اور سوغات کے مدیر اور نامور صحافی اور شاعر اور کچھ دوسرے دوست” شامل رہے ۔نکاح کامیاب رہا ۔ضیاء صاحب سنتِ ابراہیمی، ثانی نکاح پر اکتفا کیاجو ہماری انسانی فطرتِ میں شامل ہے ۔ ضیاء میر کی شادی و خانہ آبادی محبت، سوغات، تہنیت، تمکنت، مدارات و مدحت نکہت زوجیت کے ساتھ، جہیز میں کیاملا، اک نوجوان لڑکے کو سونپا گیا لڑکا کیا ہے؟ ڈپلومہ الیکٹرکل ہے،اس کو معاش کی تلاش ہے۔ اس کو کہیں نوکری کا بندوبست ہو جائے دعا کے ساتھدولہا دلہن کی رخصت ہوئی ۔ضیاء صاحبِ نے اُس لڑکے کو دو مہینے بنگلور میں رکھا جلد نوکری ملی تو میسور کونئے كام کا پروانہ ملا الیکٹرکل انجنئیر کیے۔ای ۔بیFTS میں سروس رہی ۔ پھر اس کا خاندان سارا میسور منتقل ہوا۔ضیاءصاحب کی شادی میں جولڑکابنگلور تک ساتھ رہا ،پھر میسور آباد ہوا وہ میرےتایا ابّا ہیں، مرحوم سید قطب محی الدین بادشاہ ۔
اب میں آتا ہوں سجاد بھائی کی طرف ۔سجاد بھائی کا پورا نام سید سجاد احمد قلمی نام سجّاد ندیم تعلیم اردو یم اے پی جی کمیونیکیشن صحافت کے بعد سرکاری ملازمت میں چلے گئے اسسٹنٹ کمیشنر بن کر سبکدوش ہوئے ۔آپکا مطالعہ وسیع تھا کنڈا انگریزی اردو فارسی عربی تحریکی لٹریچر وغیرہ ۔آپ کی کئی ایک تحریر دعوت نشیمن، سالار، پاسبان ہفت روزہ دہلی، کہکشاں ممبئی، ردیانس ،دہلی میں شائع ہوتی رہیں ۔
سجاد بھائی کی شادی ہاسن کے معزز گھرانے میں ہوئی ۔رشتے کو کامیابی کا نوین جوڑے کو قِسمت کے پھول کھلانے میں خاصہ سہرا مرحومہ عزیزہ اپا ہائی سکول ٹیچر زوجہ حمید خاں میر مدرس فاروقیہ ہائی اسکول اور والدہ و ماجدہ ڈاکٹر نعیم احمد خان کے سر جاتاہے ۔آج مداوت کا سر چڑھ کر شیطان بول رہا ہے ۔کتنی کامیاب ہو رہی ہیں ایسی شادیاں اللہ جانے ۔اُس زمانے میں مانے ہوئے لوگ کی بات بالیقین بھروسہ کرتے اور رخصتی ہوجاتی ۔سجاد بھائی کو تین لڑکیاں اور ایک لڑکا، ریاست کے مختلف شهروں میں ہر دوسرے سال ڈیوٹی سے ان کا ٹرانسفر ھوتارہا ۔ انکو تحریک سے وابستہ ملک گیر پیمانے پر علماء سے رفاقتی جذبہ بڑی نیازمندی سے رہا۔ آور یہ نیازمندی اسی صورت میں پیداہوتی جب ہہت سےنازآپس میں موافقت پیداکریں۔سرکاری نوکری ایک امانت کےطورپر کی ۔ بلکہ اس کی ذمےداری کو نبھا یا ۔اللہ والی انسان خدمت خلق کا نیک جذبہ اور برادران وطن سے محبت غیر مسلموں سے جذبہ باہم سے رہنا ۔یہ انسان کی اعلیٰ ظرفی ہے۔آپ کی جیپ کا ڈرائیور سے آپ نے کبھی سختی نہیں کی۔ اپنا وزنی سامان یا تھیلی اٹھانے نہیں دیا ۔ جب ٹرانسفر ھوتا تو یہ لوگ غمزدہ ہوتے۔ کہتے اتنے اچھے صاحب سے ہم محروم ہوئے۔اور تا دیر ٹرانسفر کے باوجود انکے ان سےگہرے مراسم رہتے۔ سرکاری نوکری کو تقویٰ کے راستے پر چل کر بتایا نبھایا۔حرام سےدورحرام کی پرپیچ راہوں سےدور۔ معلوم ہے آپ کو کمزور انسان ہر وقت گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے ۔تحریکی افراد یہ مایہ ناز سپوت ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کی گھٹی اور رگ رگ میں خوف خدا، رسالت ماب حضورِ اکرم کا آئینہ ان کی زندگیوں میں دیکھتے ہیں۔کے کہیں خدا اور رسول کے احکام سے ہٹا تو نہیں ؟ سجاد بھائی کو اسی چوکھٹ میں ہم دیکھتے ہیں۔نہ مال و متاع کی محبت نا دولت کی انا پرستی دوڑ صرف اکلل حلال ذریعہ سے ھٹ کر حرام کی چنگاری سے اپنے آل اولاد کو دور رکھا ۔بڑی مشکل سے اس زمانے میں راجیو نگر میں چھوٹی سی زمین لیکر آشیانہ بنایا ۔زمین جگہ دلوانے والوں دلالوں سے نفرت کرتے، دلالیوں کی منہ زوری بد زبانی کی وجہ سے وہ کٹتے، میرے چھوٹے بھائی خطیب وہ گواہ ہیں۔ اس معاملے میں۔اک مومن کے اندر اللہ تعالیٰ جان کی طرح بسا ہوا ہو، اسکی گردن باطل کے آگے کبھی نہیں جھکتی ۔سجادبھائ کی بھی یہی حالت ہے ۔انھوں نے بچپن، جوانی،درمیانی عمر سے ضعیف العمر کےقریب ساری زندگی دکھ درد صبر کے ساتھ جھیلا ۔زندگی میں عقل و ہوس کے شکار سے ھٹ کر چاہے سرکاری معاملہ ہو یا خانگی زندگی بچوں کی پرورش میں کبھی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کی فکر نے بڑی باریکیاں پیداکیں۔
سال میں اک مرتبہ ہاسن شہر اپنے سسرال ضرور جاتے ۔انکا ہاسن جانا ایک مقصد تھا بڑا لڑکا ابھی 10برس کا ہونے سے پہلے اسکو منصورہ عربک کالج اللور کراس ہاسن چھٹیوں میں الصباح بعد فجر لے جاتے تاکہ بچے میں وہ ذہن بن جائے بچه غور سے دیکھتا اسمبلی اسکول میں کھڑے ہوکر انکا پڑھنا ہاسٹل کی رہائش کھانے کا کمرہ ،ساتھیوں کا کمرہ، مسجد، لان باغبانی دکھا کر باپ اس کا ذہن بناتے اِک اُمنگ اور دلچسپی پیدا کرتے ۔معلوم تھا ان کے بچے کا مستقبل منصورہ ہے ۔یہ وہ جگہ تھی اِس بچّے کی شخصیت کو مستحکم۔کرنے کے ذرائع مل گئے ادھر بچہ جوش بجوش تیارہوا ۔
مجھے یہاں پڑھائی کرنا ہے، بچے میں اِک شوق جذبہ پیدا ھوا تو خوشی خوشی داخلہ کے لئے منظورِ ہوگیا ۔بچے میں بھی ذہنی لیاقت اُمنگ تڑپ علمی فکر اساتذہ کی رہنمائی ملی تو وہاں سے کندن بن کر نکلا ۔
ماں کے لئے یہ درد و محبت کی قربانی کئی سال دینی پڑی ساتھ ساتھ باپ کی قربانی و خاموشی صبر رنگ لائی ۔یہ بچّہ منصورہ میں رہ کر تجلیاتِ منصورہ سے سرشار و منور ہو کر اساتذہ کی صحبت میں خورشید کی عظمت پا کر اپنے والدین کا سر فخر سے اونچا کیا۔ ان کے بیٹے کا نام فیصل ہے اِس میں باپ اور دادا ضیاء صاحب دونوں کے جراثیم موجود ہیں اتنا قابل ہوا تعلیمی میدان میں کمند ڈالتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا رہا ۔وہ آج جندالِ یونیورسٹی دہلی میں پروفیسر کے خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ ماں باپ کی میراث نیک اولاد ہی تو ہیں ۔دنیا،قبر اورپھر آخرت میں یہ نیک اولاد صدقِ جاریہ ہوگی ۔اگر والدین صحیح دین کی تربیت کرے تو نتیجہ میں اولاد کی نیکیاں دعائیں خیرات صدقات اس کا اجر بھی والدین کو ملتا رہیگا۔ ہر وہ کام جس کے نتائج و ثمرات پائیدار ہیں۔جو اس کے بعد قائم رہیں گے ۔ان کی موجودگی تک ثواب ملتا رہیگا ۔ اولاد کو اسی ڈگر پر باگ ڈور سنبھال کر میاں بیوی دونوں نے پرورش کی دنیا اور اخرت کامیاب ہوئی۔دعا ہے انکی اولاد کی قسمت کا ستارہ چمکتا رہے۔ اقبال بلندہو۔آمین سجاد بھائی تو نیک دیانت دار وعدہ و وفاداری اور اس قربانی کا مرقع تھے اس کا ثبوت خود ان کے دوست احباب ہیں۔ زندگی تسلسل واقعات کے فہم کی موج ہے کچھ باتیں اور یادیں میرے دل میں خوابِیدہ رہی ۔اور صدف میں موتی کی طرح پوشیدہ رہی ۔جو آخر میری آنکھوں کے پیمانے سے چھلک پڑی تو۔ صفحہ قرطاس پر قلمبند ہو کر بکھر گئیں ۔دعا ہے ان کی آخری آرام گاہ جنّت کا گلستان بنے قبرنور سے منور ہو۔روح کو سکون و آرام ملے حضور سرکار دوعالم کا پاس رکھا ہے انہوں نے باغ بہشت میں اعلیٰ آرائی و آسائش مقام میں سکونت رکھے آمین ۔یاربالعالمین۔
پیشکش:سید شاہ مصطفیٰ مزمل میسور ۔قطر
Leave a Reply