دودھ والے نے دودھ کی مقدار سے بھی زیادہ پانی ڈالا اور خراماں خراماں اپنی گاڑی پہ شہریوں کو مہنگے داموں دودھ فروخت کرتا رہا بڑی حیرت کا مقام اور دکھ کی بات تھی کہ اسے اپنے اس مکروہ فعل پہ ذرا بھی ندامت یا پریشانی نہ تھی نہ اسے اپنی بریسٹ کینسر کے مشکل ترین علاج کے مراحل سے گزرتی اپنی ماں کی سسکیاں سنای دیں نہ ہی بستر مرگ پہ کءی سالوں سے لیٹا ہوا فالج زدہ باپ دکھائی دیا اس کے کانوں میں تو صرف اپنے آباو اجداد کے یہ الفاظ ہی ہمہ وقت گونجتے رہتے تھے کہ بھینس کا دودھ اگر خالص بیچ دیا جاے تو پوری نہیں پڑتی. حالانکہ در حقیقت ایسا کچھ نہ تھا اللہ پاک رزق حلال کمانے کی نیت کرنے والوں کے لیے نہ صرف رزق کے دروازے کھول دیتا ہے بلکہ ان کی روح کو اتنا زیادہ سکون بخشتا ہے کہ وہ سکون کی نیند سوتے ہیں نہ انھیں کوی ڈر ہوتا ہے اور نہ کوی خوف اور نہ ہی ان کی روح کسی طرح کے بوجھ تلے دبی ہوتی ہے وہ اپنی موج کی روانی میں ایک مطمئن اور پر سکون روح ہوتے ہیں. مگر یہ شیر فروش رب جانے کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں کہ دودھ میں ملاوٹ کرنے پہ نہ ہی انھیں تکلیف ہوتی ہے اور نہ ہی ان کا ضمیر انھیں کچوکے لگاتا ہے مگر ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
اللہ پاک نے ہر انسان کو مکمل بنایا ہے جسمانی اور روحانی لحاظ سے تو پھر ضمیر تو شیر فروش کا بھی ہو گا شاید دنیا داری کے دھندوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس نے اپنے ضمیر کو وقتی طور پہ سلا رکھا ہو.؟
ایک بہت بڑے گورنمنٹ ہسپتال کے کارڈیالوجی یونٹ کے لیے پروفیسرز کی آسامی کے لیے انٹر ویوز چل رہے تھے نشستیں حدود اور امیدوار بہت زیادہ تھے. سلیکشن ٹیم کے انچارج کے چھکے چھوٹے ہوے تھے اسے اوپر سے ہدایات مل چکی تھیں کہ یہ دکھاوے کی ایک بساط ہے ورنہ امیدوار تو بنا انٹرویو کے ہی سیلیکٹ ہو چکے تھے سلیکشن انچارج نمازی پرہیز گار قسم کا انسان تھا ساری عمر سرکاری نوکری بھی اس نے بڑی دیکھ بھال کے کی تھی اتنی بڑی پوسٹ پہ ہونے کے باوجود بھی اس نے رشوت لینے اور دینے دونوں ہی سے پرہیز کیا تھا مگر واے ری قسمت آخری عمر میں وہ اپنی نوکری بچانے کے لیے اتنا بے بس تھا کہ نالائق سفارشی پروفیسرز کو جایز حق داروں پہ فوقیت دیتے ہوے میرٹ کا سر عام قتل کر چکا تھا دو بوڑھے ماں باپ اور ایک عدد بیوی اور چار بچوں کی بھاری ذمہ داری نے گونگا بہرہ اور اندھا کر دیا تھا اس نے اپنے اشکوں کی لڑی کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے صاف کیا اور اپنے بار بار جاگنے والے ضمیر کا گلا ہی گھونٹ دیا.
چکن بنانے والے نے جس قیمت پہ گاہک کو چکن دیا پھر مرغی کے پنجے، انتڑیاں، چھیچھڑے وآپس لے کر دوبارہ بیج دیے تو کوی اس چکن بیجنے والے کا بھی تو ضمیر ہو گا جو وہ اہنی مجبوریوں سے دامن چھڑانے کے لیے وقتی طور پہ سلا لیتا ہو گا.
ان تمام ڈاکٹرز کا بھی کوئی نہ کوی ضمیر تو ہوتا ہی ہو گا جو وہ جان بوجھ کر مریضوں کی زندگی سے چند روپوں کی خاطر کھیل جاتے ہیں شاید وہ بھی وقتی طور پہ اپنے ضمیر کو سلا لیتے ہوں گے کہ کسی نہ کسی طرح پاپی پیٹ کی آگ کو تو بجھانا ہے ناں.
اور مہنگے مہنگے پرائیویٹ سکولز میں ڈالرز کی شکل میں فیسیں دینے والے ٹیچرز جب اکیڈیمیز میں ٹیوشن اور پاسٹ پیپر سیشن کی مد میں لاکھوں روپے بٹورتے ہوں گے تو ان کا ضمیر بھی دوہاییاں تو بہت دیتا ہو گا مگر کارزار حیات کو روانی کو جاری و ساری رکھنے کے لیے وہ بھی اپنے ضمیر کو وقتی طور پہ سلا لیتے ہوں گےناں؟
منافع خوری، ملاوٹ، چور بازاری، بے ایمانی، جھوٹ،چوری،غلط بیانی ہر برای ہی ہمارے ضمیر کو جگانے کے لیے کافی ہوتی ہے مگر ہم اتنے ڈھیٹ ہیں کہ ہم اپنے ضمیر کو زندہ رکھنے کی کوی کوشش ہی نہیں کرتے. ہم اپنے حال میں مست رہنےوالے لوگ ہیں.
اور اس دفعہ تو الیکشنز کے نتائج دیکھ کے حکومت کو بنتے دیکھ کے یہ سو فیصد یقین ہو گیا کہ جہاں ہم رہتے ہیں وہاں حکمران جماعت کے پاس دل اور دماغ تو شاید ہو یا نہ ہو ضمیر بالکل مردہ ہے.
ضمیر
کوی اس کا
ضمیر بھی ہو گا.
چھین. لے گا
جو اس سے چین کی نیند
جو اسے بے وجہ ستاے گا
جو اسے اس طرح رلاے گا
کہ
وہ دنیا کو بھول جاے گا
اور اس مولوی کا بھی کوئی ضمیر تو ہو گا ناں جو اپنے بچوں کو قرآن پڑھانے کی آڑ میں ان سے زیادتی کرتا ریتا ہے اور اپنا راز افشا ہونے کے ڈر سے بچے کی جان ہی لے لیتا ہے.
اس دعا کے ساتھ اجازت کہ اللہ پاک ہمارے اور آپ کے سوے ہوے ضمیر کو ہمیشہ کے لیے جگا دے
آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com
Leave a Reply