rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
اسے لگا بلاوا تقدیر ہے، جو لوح ازل سے تحریر ہو جاتا ہے جس پہ اللہ پاک باقاعدہ طور پر اپنی مہر لگا کے اسے مستند قرار دے دیتے ہیں، جیسے کہ ایمان مفصل میں ہے کہ اے اللہ میں ایمان لایا اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کے رسولوں پر، اس کی کتابوں پر، اچھی اور بری تقدیر پر، قیامت کے دن پر اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھاے جانے پر. تو تقدیر بھلے اچھی ہو یا بری اللہ پاک کی طرف سے اس کی عطا ہوتی ہے، اور یہ عطا ہی بلاوا ہے، ویسا ہی بلاوا جیسا حضرت زکریا کے ہاں یحییٰ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا ہوا وہ دعائیں تھیں دو عالی مقام پیغمبروں کی اللہ پاک کے حضور اور اللہ پاک نے ان پیغمبروں کے صبراور آزمائشوں کے صلے میں انعام کے طور پر اور سلسلہ نبوت کو جاری و ساری رکھنے کے لیے ادھیڑ عمری میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو حضرت زکریا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حضرت اسحٰق علیہ السلام سے نواز دیا، ایسے ہی نوراحمد بھی بی بی فاطمہ کے دکھ درد، آزمایش، تکلیف اور صبر کے ازالے کے لیے بی بی فاطمہ کی تہجد میں مانگی ہوی دعاوں کے صلے میں اس جہاں سے اس جہاں تک بلاوے ہی سے پہنچے تھے، پھر خاندانی دشمنی سے انھیں بچانے کے لیے انھیں ڈیرہ دایم کو چھوڑ کر شہر میں جا بسنے کا بلاوا آگیا. پھر ان کی شادی کے امیدواروں میں پورے پنڈ کی لڑکیاں ہی شامل تھیں ہر لڑکی نور احمد جیسے ہینڈ سم، پڑھے لکھے، اعلیٰ پوسٹ پہ فایز لڑکے کے خوابوں کی شہزادی بننا چاہتی تھی لیکن تقدیر بنانے والے نے بلاوا نسیم اختر کو دے رکھا تھا تو پھر وہی نوراحمد کی دولہن بن کے ان کے آنگن میں اتری تھیں, مانو ایک نور کا ہالہ ان کے آنگن میں اتر آیا تھا، شادی کے بعد تمنا سب ہی کو بیٹے کی تھی مگر اللہ پاک چار بیٹیوں کے بلاوے کے بعد بیٹے کو بلاوا دے چکے تھے سو ایسا ہی ہوا. اور ٹکٹ حج کے ہو چکے تھے مگر اذن حج نہ ہوا اور بلاوا واپسی کا آ گیا، احرام باندھنے والے نے کفن اوڑھ لیا، کیا کرتا بلاوا جو آ چکا تھا، مہرو نے جونہی موزن کی خوش الحان صدا سنی.
حی علی الصلوۃ
حی علی الصلوۃ
حی علی الفلاح
حی علی الفلاح
صلاتہ خیر من النوم
وہ بستر سے اٹھی اور فجر کی اداییگی کا اہتمام کرنے لگی, وہ خوش نصیب تھی کہ اسے نماز کی ادای کا بلاوا آچکا تھا، اذان کی صدا سینکڑوں کانوں میں پڑی تھی مگر انھیں چونکہ بلاوا نہ آیا تھا تو ان کے پاس جوازات کے ڈھیروں دھیڑ موجود تھے.
کبھی کبھی کہیں جانے کے لیے لوگ دعائیں مانگتے ہیں، صدقے خیرات دیتے ہیں، عمریں بتا دیتے ہیں مگر ان کے مقدر میں بلاوا ہوتا نہیں ہے اور کچھ ایسے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ بلاوا ان کے در پہ ہاتھ باندھے مودب غلام ہوتا ہے. حج کے لیے لوگ ہجوم در ہجوم طواف کعبہ میں مصروف تھے اور حج کی قبولیت کا بلاوا اس موچی کو جا چکا تھا جو ساری عمر پای پای حج کے لیے جمع کرتا رہا اور پھر ساری پونجی اپنے ہمسائے کی بیٹی کے جہیز کے لیے دے دی،جس کی شادی جہیز کی عدم دستیابی کے باعث ٹوٹنے جا رہی تھی. ہجرت کرنے والے اپنی مرضی سے تھوڑی اپنا گھر بار چھوڑ کر دربدری کی ذلت سہتے ہیں، بس ان کا بلاوا آ جاتا ہے، جہاز اڑان بھر چکا تھا، بڑے بڑے ڈاکٹر اور انجینیرز کءی سالوں کی شبانہ روز محنت کے بعد کیننڈا اپنی اپنی جابز پہ روانہ ہونے والے تھے، ان کے چہرے جوش اور امنگ سے روشن تھے، وہ پوری تیاریوں سے بدیس روانہ ہو رہے تھے اس بات سے بے خبر کہ ان کا بلاوا آ چکا تھا، ہم سب اپنے اپنے بلاوے کے منتظر ہیں بس یہ دعا ہے کہ ہمارا بلاوا جب بھی آے، اس حال میں آے کہ ہمیں بلاوا دینے والا ہم سے راضی ہو.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam. nauree1@cloud.com
Leave a Reply