تحریر:اشعرعالم عماد
جنابِ عالی گواہوں کے بیانات اور پولیس کے فراہم کردہ ثبوت کے بعد ملزم پر اس کا جرم ثابت ہوچکا ہے ! لہذا میری فاضل جج صاحب سے درخواست ہے کہ مجرم کو کڑی سے کڑی سزا سنائی جائے۔
وکیلِ استغاثہ نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا
جج نے کٹھہرے میں کھڑے ملزم(جو اب مجرم تھا) کی طرف دیکھا۔۔۔
اور قلمندان سے قلم نکالتے ہوئے مجرم سے پوچھا
” تمھاری خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی تمام تر کوششیں ناکام ہوئیں ۔۔۔ تم پر لگا الزام اب تمھارا جرم بن چکا ہے اور قانون کے پاس تمھارے اس جرم کی سزا سزائے موت سے کم نہیں لکھی جاسکتی۔۔۔۔
مگر حتمی فیصلہ لکھنے سے قبل میں تم سے تمھاری آخری خواہش جاننا چاہوں گا تمھاری کوئی آخری خواہش ہے بتاؤ ؟ ”
حج نے دھیمی آواز میں کہا۔۔۔
ملزم نے جج کی طرف مسکرا کے دیکھتے ہوئے کہا
میری غربت نہ تو کوئی اچھا وکیل خرید سکی اور نہ ہی کوئی فاضل حج۔۔۔۔اسی لیئے مجھ پر میرا نا کردہ جرم ثابت ہوا ” وہ کرب ناک لہجہ میں بولا۔۔۔
تم سے تمھاری آخری خواہش پوچھی گئی ہے اگر ہے کوئی تو اس کا اظہار کرو۔۔۔
جج صاحب نے گرجدار لہجے میں کہا !
می لارڈ آپ جانتے ہیں میرے مقابل اشرفیہ تھی اسی لیئے میری سزا یقینی تھی میں اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے اپنی سزا کو قبول کرتا ہوں آپ نے میری آخری خواہش پوچھی۔۔۔
تو میری اب صرف ایک میری ایک ہی خواہش ہے” ملزم بولا۔۔۔
جو بھی خواہش ہے بے دھڑک کہہ دو حتی الامکان پوری کی جائے گی۔ حج نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔۔
می لارڈ۔۔۔ میری خواہش ہے کہ میرا فیصلہ لکھتے وقت آپ کا ایک ہاتھ قرآن پر ہو اور دوسرا قلم پر میں اپنے فیصلے میں قرآن کو گواہ بننا چاہتا ہوں۔۔۔
یہ کہہ کر مجرم نے سر جھکا لیا۔۔۔
مجرم کے اس جواب پر جج سمیت بھری عدالت میں ہر مجسم ششدر اور لب بستہ تھا۔۔۔۔ سب ایک دوسرے کی جانب معنی خیز نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔
عدالت کے خاموش ماحول میں دھیرے دھیرے چہ مگویاں شروع ہونے لگیں۔۔۔
“فیصلہ غیر معینہ مدت کے لیئے ملتوی کیا جاتا ہے”
جج صاحب کی گرجدار آواز ایک دم دھیمی آواز میں تبدیل ہوئی۔۔۔
جج نے کانپتے ہاتھوں سے اپنا قلم دوبارہ قلمندان میں رکھا۔۔۔ اور کہا۔۔۔
عدالت برخاست ہوئی۔۔۔
تاریخ میں پہلی بار عدالت کو اپنے ضمیر کا فیصلہ لکھنا تھا۔۔۔۔
Leave a Reply