عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان میں سردی کا آغاز ہوتے ہی دیگر مسائل کی طرح ایک سب سے بڑا مسئلہ گیس کی فراہمی میں تعطل سے بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی اس مسئلے پر پورے موسم گرما کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ، اور اب موسم سرما کے آغاز پر پھر وہی گھسے پٹے پرانے بیانات کا ہی سہارا لیا جا رہا ہے ، کہ پائپ لائن کی صفائی جاری ہے ، مرمت کا کام ہو رہا ہے، یا پھر سپلائی کی بہتری پر توجہ دی جا رہی ہے ۔ عوام بھی ان بیانات کے عادی ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے علم میں ہے کہ سارے موسم سرما انہیں ان بیانات سے ہی گرم رکھنے کی کوشش کی جائے گی ،جو ان اداروں کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے ۔ بلوچستان میں عموماً سردی کی شدت نقطہ انجماد سے کافی حد تک نیچے گر جاتی ہے اور روز مرہ کے معمولات بحال رکھنے کے لئے گیس کی اشد ضرورت رہتی ہے جو یہاں کے عوام کا بنیادی حق ہے ، لیکن ہر سال عوام کو سردی کی شدت برداشت کرنے کے لئے بے یار و مددگار چھوڑ دیا جاتا ہے ۔بلوچستان کے عوام کے احتجاج کو جو روزانہ کی بنیاد پر پورے موسم سرما جاری رہتا ہے قومی میڈیا پر کوئی اہم مسئلہ نہ سمجھتے ہوئے جیسے ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا ہے وہ اس سال بھی کیا جا رہا ہے ۔ کچھ خبریں چلا کر میڈیا یہ سمجھتا ہے کہ سردی میں ٹھٹھرتے بچوں، بوڑھوں اور خواتین کی داد رسی ہو گئی ہے ۔ اس مسئلہ پر کوئی پروگرام کرنا جس میں اعلیٰ عہدیداروں سے جوابات طلب کئے جائیں شائد ہمارے قومی میڈیا کے ایجنڈے کا حصہ نہیں ہے ، کیونکہ انہیں سردی کی شدت بڑے بڑے گرم دفاتر میں بیٹھ کر محسوس نہیں ہوتی ہے۔
صوبے میں قدرتی گیس 1955 میں سوئی کے مقام پر دریافت ہوئی تھی ، جس سے یہاں کے لوگوں میں یہ امید جاگ اٹھی تھی کہ اب ان کی سردیاں آرام سے گزر سکیں گی ۔ زیادہ تر لوگوں کے علم میں ہے کہ اس سے پہلے بلوچستان میں روائتی لکڑی اور کوئلہ کے چولہے ہوا کرتے تھے جس میں لکڑی اور کوئلے جلا کر حرارت کا انتظام کیا جاتا تھا ، جس سے سردیوں میں گھر تو گرم ضرور رہتے تھے لیکن ساتھ ہی دھویں کی وجہ سے در و دیوار کالے رنگ میں بھی بدل جاتے تھے اور پھر راکھ کی صفائی وغیرہ بھی ایک مشکل امر رہتا تھا ۔ بارشوں میں یہ لکڑیاں اور کوئلہ گیلا بھی ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے ان کو جلانا بھی پریشانی میں خاطر خواہ اضافہ کر جاتا تھا ۔ گیس کی دریافت کو یہاں کے عوام نے ایک سکون و راحت کی علامت کے طور پر خوشی منا کر خیر مقدم کیا ، پھر اس کے حصول کی جدوجہد ایک الگ داستان ہے جس کے لئے بھی ایک طویل جدوجہد کی گئی ، تب جا کر یہ سہولت بلوچستان کے عوام تک پہنچ پائی ۔ اس کے بعد سے عوام کی اکثریت کا دارومدار سردیوں میں گیس کے اوپر منتقل ہونا شروع ہو گیا۔ گھروں میں روائتی لکڑی کے چولہوں اور انگیٹھیوں کی جگہ خوبصورت جاپانی گیس ہیٹروں نے لے لی اور یوں سب نے سکھ کا سانس لیا کہ اب دھویں اور راکھ سے نجات مل گئی ہے۔ لیکن شائد ہر سہولیات کا حصول عوام کے لئے اتنا آسان نہیں ہے کہ یہ وطیرہ بن گیا ہے کہ جب تک عوام کو مکمل تنگ نہ کیا جائے کوئی سہولت مکمل مہیا نہیں کی جاتی ہے ۔
بلوچستان میں ان دنوں بھی خوب سردی کا راج ہے سرد اور یخ بستہ ہوائیں چلنے سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سمیت مختلف شہروں میں خون جما دینے والی سردی پڑ رہی ہے ۔ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے کافی ڈگری کم ہو رہا ہے ۔ ایسے میں یہاں رہنے والے شہری جسم کو گرم رکھنے کے لیے گرم کھانوں اور میوہ جات کے ساتھ ساتھ گرم ملبوسات کا استعمال تو کر ہی رہے ہیں ، اور ساتھ ہی آٹھ گھنٹے سے 10 گھنٹے تک گیس لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھی بھگت رہے ہیں۔ متعدد علاقوں میں بھرپور احتجاج بھی جاری ہے ، جو اعلیٰ حکام کے کان تک پہنچ نہیں پا رہا ہے ۔ بہت سے لوگ مجبوراً پرانی انگیٹھیوں کو یاد کرتے ہوئے دوبارہ ان سے استفادہ حاصل کر رہے ہیں ، جاپانی خوبصورت ہیٹر کے بغل میں ہی مقامی طور پر تیار انگیٹھیاں مسکرا رہی ہیں کہ اب اس پر ہی عوام کا دارومدار ہے۔ لیکن اس میں بھی پریشانی لکڑیوں کی قیمت کا آسمان تک پہنچنا اور عدم دستیابی ہے ، عام آدمی اس سہولت سے بھی فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی بار سوچتا ہے۔ ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ ایک مستقل مسئلہ جو ضروری توجہ سے حل ہونا ممکن ہے اس کے لئے بھی عوام کو بے یارو مددگار چھوڑ دینا کیا بے حسی کی علامت نہیں ؟؟ کیا ہر سہولت کو عوام تک تڑپا تڑپا کر پہنچانا ضروری ہے ؟ کیا بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں ناکامی کا ملبہ بھی عوام کو اٹھانا پڑے گا ؟؟ سوالات بہت سے ہیں جن کے روایتی جوابات اب عوام کو مطمئن کرنے سے محروم ہیں ۔ سو کم از کم بیانات بدل لیجئے اگر حالات نہیں بدل سکتے ۔
Leave a Reply