Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بلوچستان میں پرنٹ میڈیا کا بحران

Articles , Snippets , / Monday, May 5th, 2025

rki.news

عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلوچستان، پاکستان کے نقشہ پر رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ ہونے کا شرف رکھنے کے ساتھ ساتھ ابھی باقی صوبوں کے مقابلے میں پسماندہ ہونے کا داغ بھی سینے پر سجائے ہوئے ہے۔ یہاں کے رہائشی افراد کو پرائیوٹ سیکٹر کے محدود ہونے کا خمیازہ بے روزگاری کی شکل میں بھگتنا پڑتا ہے۔ فیکٹریوں، ٹیکسٹائل ملز، اور دیگر پرائیوٹ سیکٹر کے بزنس نہ ہونے کی محرومیوں کا زخم سہنا پڑتا ہے ۔ خیر پرائیوٹ تو دور کی بات سرکاری سیکٹر میں بھی صنعتوں کی کمی نوجوانوں کو بے روزگاری کا بوجھ اٹھائے سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پر مجبور کرتی رہتی ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا شکار یہاں پر اخبارات کی صنعت بھی ہے جو دیگر صوبوں کے برعکس پرائیوٹ سیکٹر نہ ہونے کی وجہ سے بھرپور پرائیویٹ اشتہارات لینے سے قاصر ہے ۔ جب صوبہ میں پرائیوٹ سیکٹر نہ ہونے کے برابر ہو تو اس سے کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، لہٰذا یہاں کے اخبارات و جرائد کا زیادہ تر دارومدار سرکاری اشتہارات تک محدود ہے، اور وہی مقامی صحافتی اداروں کے پہیوں کے چلنے اور اس سے وابستہ افراد کے گھروں میں چولہے جلنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے ۔ بلوچستان میں صحافیوں کو نہ صرف مالی مشکلات کا سامنا ہے بلکہ انہیں جان کے خطرات بھی لاحق ہیں۔ پاکستان پریس فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق کئی صحافیوں کو کئی کئی مہینے تنخواہیں نہیں ملتیں، اور بعض کو بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ملازمت تک سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔ ایسے مشکل حالات میں اپنا وجود برقرار رکھنا یہاں کے مقامی اخبارات و جرائد کے حوصلے کی بات ہے ، اس میں بھی سرکار اپنی پالیسیوں سے مخالفت رکھنے والے اخبارات و جرائد کو سرکاری اشتہارات کی بندش کر کے ان کا گلا گھونٹنے کے اقدامات کرتی ضرور نظر آتی ہے، لیکن پھر بھی کسی حد تک یہ سرکاری اشتہارات ہی ہیں جو مقامی اخبارات و جرائد کو زندہ رکھے ہوئے ہیں اور مقامی صحافی ان مشکل حالات میں بھی حق و سچ کا پرچم بلند کرنے کی حتی الامکان کوششیں کر رہے ہیں، لیکن حکومتِ بلوچستان کے تازہ اقدام کے مطابق اب سرکاری اشتہارات بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (BPPRA) کے ذریعے ہی جاری کئے جائیں گے، جس سے ایک طرف تو مقامی اخبارات کو آزادانہ صحافت سے روکنے کے لئے کی جانیوالی کوششوں کو فروغ ملنے کے امکانات بڑھ جائیں گے، اور دوسری طرف ایسی شرائط بھی لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے مقامی اخباری صنعت جو پہلے ہی وینٹی لیٹر پر سانسیں لے رہی ہے بالکل ہی آخری سانسوں پر آ جائے گی، بلکہ بہت سے اخبارات و جرائد کی شائد موت ہی واقع ہو جائے گی۔ پہلے ہی اخبارات و جرائد کو اشتہارات کے مَد میں اُن کے بلز کی ادائیگیاں کافی تاخیر سے کی جاتی ہیں، جن پر مقامی اخبارات و جرائد کی تنظیموں کا احتجاج معمول کی بات ہے، لیکن تازہ ترین اقدام سے تو صنعت بالکل ہل کر رہ گئی ہے۔ اس لئے 3 مئی 2025 کو ایک ایسے دن جب ساری دنیا میں آزادیء صحافت کا دن منایا جا رہا تھا ، مقامی اخبارات و جرائد کی تنظیمیں سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے یومِ سوگ کے طور پر منانے پر مجبور تھیں ۔ دوسری طرف حکومتِ بلوچستان اور بلوچستان پبلک پروکیورمنٹ ریگولیٹری اتھارٹی (BPPRA) کا موقف ہے کہ یہ اقدام پورے خلوص اور نیک نیتی سے لیا گیا ہے۔ BPPRA کا مزید کہنا ہے کہ اشتہارات کی تقسیم میں شفافیت اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے نئے قواعد و ضوابط متعارف کرائے گئے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اقدامات اس لیے بھی ضروری ہیں تاکہ سرکاری وسائل کا مؤثر استعمال ہو ۔ ان اخبارات و جرائد کو فائدہ ملے جن کی سرکولیشن بہتر ہے اور جعلی یا غیر فعال اخبارات کو فائدہ نہ پہنچے۔ ان کے مطابق بہت سے ایسے اخبارات و جرائد لسٹ میں موجود ہیں جن کے نام تو شاید سنے ہوتے ہیں، لیکن اُن اخبارات و جرائد کی شکل کسی نے نہیں دیکھی اس لئے ایسے اقدامات کئے جا رہے ہیں تاکہ صرف حقدار تک ہی حق پہنچ سکے۔ مقامی اخبارات و جرائد تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جو پہلے بھی کبھی شفافیت سے نہیں کیا گیا اور یہ کیسے طے کیا جائے گا کہ BPPRA اور مقامی اخبارات و جرائد میں سے کس کا موقف درست ہے۔
اس سے قطع نظر کہ اس وقت دونوں میں سے کس کا موقف درست ہے کوئی بھی قدم مکمل شفافیت سے لینا ہی منتخب حکومت کا اولین فرض ہوتا ہے، جس کے لئے سب سے پہلا قدم ان لوگوں کو اعتماد میں لینا ہے جن کے لئے یہ پالیسی ترتیب دی جا رہی ہے، اور اس کا بہترین راستہ مذاکرات ہیں۔ دنیا کے بڑے بڑے مسائل مذاکرات سے ہی حل ہو تے ہیں ۔ مقامی اخبارات و جرائد کے نمائندوں سے مذاکرات کیجئے، ان کے موقف کو سنئیے ، اور پھر باہمی مشاورت سے ہی آگے کے اقدامات کئے جائیں۔ اب مقامی اخبارات و جرائد نے روزانہ کے احتجاج کا اعلان کیا ہے امید ہے کہ حکومت بردباری کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کے دروازے کھول دے گی تاکہ مقامی صحافیوں اور اخبارات و جرائد مالکان کے گھروں میں جلنے والے چولہے ٹھنڈے نہ پڑنے پائیں۔ دنیا بھر میں ڈیجیٹل میڈیا آنے کے باوجود کہیں بھی پرنٹ میڈیا پر قدغن لگانے یا اس سے صرفِ نظر کرنے کی کوشش نہیں کی گئی، بلکہ اس کی مسلم حیثیت کو برقرار رکھتے ہوئے اس کے لئے ایسے اقدامات کئے گئے ہیں کہ اس دور میں بھی وہ اپنی اہمیت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ مقامی اخبارات و جرائد کو ڈیجیٹل میڈیا پر قدم جمانے کی کوششوں میں معاونت فراہم کرے، مذاکرات و مفاہمت سے بھرپور کوششیں کرے تاکہ بلوچستان کی وہ مظلوم آواز جو ان کی وجہ سے پورے ملک میں سنائی دیتی ہے وہ اور مضبوط اور توانا ہو سکے


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International