(آپ بیتی : قسط نمبر 01)
فیروز ناطق خسرو
“ہندوستان سے پاکستان ہجرت”
ہم سات بہن بھائی۔ دو بھائی اور ایک بہن مجھ سے بڑے اور دو بھائی ایک بہن مجھ سے چھوٹے۔
میں 19 نومبر 1944 عیسوی یوپی کے مشہور شہر بدایوں میں پیدا ہوا۔
بدایوں جسے مدینتہ الاولیاء ، شعر و ادب کا گہوارہ بدایوں(بداؤں) کہا جاتا ہے۔ جہاں کے پیڑے اور للا بھی مشہور ہیں۔
میں 4 سال کا تھا جب 1948 میں والدین (حضرت ابوالحسنین ناطق بدایونی، مسلمہ خاتون نہاں)کے ساتھ ہندوستان سے ہجرت کرکے لاہور شہر ، پاکستان آگیا۔
صرف اتنا یاد ہے کہ ہمارے کمرے کی کھڑکی سے ریل کی پٹری نظر آتی تھی۔ گزرتی ریل کی دھڑدھڑاہت سے میں ڈر جاتا، کھڑی سے نیچے جھک جاتا لیکن نظریں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگتے ریل کے ڈبوں اور آخر میں ہری جھنڈی لہراتے گارڈ پر جمی رہتیں۔۔
اسی اثنا میں ایک کھیل شروع ہوگیا۔کریلے جب گھر میں پکتے تو میں ان کے ہرے، پیلے، سرخ بیچوں سے کھڑکی کی چوکھٹ پر ریل گاڑی بناکر کھیلا کرتا۔ کچھ عرصے بعد پڑوس کی ایک قدرے عمر میں مجھ سے بڑی بچی کے ساتھ باہر ریلوے پٹری کے نزدیک کھیلنے نکل جاتا۔ چھوٹے بڑے بچے بھی کھیلتے ہوتے۔ سب کو جیسے ریل گاڑی کے آنے کا وقت پتہ ہوتا۔ اس سے تھوڑی دیر پہلے ریل پٹری پر چھوٹے چھوٹے پتھر رکھ دیتے ۔ریل دھڑ دھڑ کرتی گزرتی ، میں ڈر کے اپنی ہمجولی کا ہاتھ کس کر تھام لیتا۔ ریل گاڑی کے بعد سب دوڑ کر پٹری پر پہنچتے۔ پتھر کے چھوٹے ٹکرے سفید آٹے کی شکل میں تبدیل ہوئے ہوتے۔
ایک دن ٹرین سے قبل جب ہم بچے پتھر چن رہے تھے ڈنڈا لیے ایک شخص ہماری طرف دوڑتا نظر آیا۔ سب بھاگنے لگے ، ہمارا گھر قریب تھا ہم نے بھی دوڑ لگائی۔۔ وہ شخص ڈنڈا ہلا ہلا کر پتہ نہیں کیا کیا کہہ رہا تھا۔۔(بعد میں پتہ چلا وہ لائین مین ہوتا ہے ۔آگے کہیں سڑک پھاٹک بند کرنے والا). ہمیں اس روز والدہ سے بہت ڈانٹ پڑی۔۔باہر نکلنا بند ہوگیا۔ چند روز بعد ہم سب خیرپور میرس (سندھ) مستقل طور پر آگئے۔
آنے سے قبل ایک رات زور زور سے رونے کی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ ابا دھاڑیں مار مار کر رورہے تھے کبھی دیوار سے سر ٹکراتے۔۔دادی کا ہندوستان میں انتقال ہوگیا تھا۔ ابا سب بہن بھایوں سے چھوٹے، دادی کے لاڈلے، ان کے منع کرنے کے باوجود پاکستان ہجرت کرکے آگئے تھے۔۔
میرے ذہن میں ان کی دھاڑیں ، ہائے میّا، ہائے میّا کی آوازیں، ابھی بھی گونجتی رہتی ہیں۔ ساتھ ہی کریلے کےنیلے پیلے سرخ بیجوں سے کھڑکی کی چوکھٹ پر ریل گاڑی چلانا، ریل کی پٹری پر پتھر رکھ کر “آٹا” بنانے کا جادو اور وہ ہمجولی لڑکی(جس کی شکل بھی یاد نہیں) کی یادیں آج بھی حافظے میں محفوظ ہیں۔ (جاری ہے)
Leave a Reply