rki.news
“ابا کی وفات: (12 اکتوبر 2003)”
ابا محکمہ اطلاعات میں اچھے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ استاد شاعر، ادیب ساری زندگی لکھنے پڑھنے میں گزاری آخری عمر میں بہت کم بولتے تھے۔ یادداشت بھی کمزور ہوگئی تھی۔ ہاتھ میں رعشہ کے سبب لکھنے پڑھنے سے بھی معذور:
“عمر بڑھتی گئی جوں جوں ماں باپ کی، آمد و رفت محدود ہوتی گئی
بیٹھے بیٹھے در و بام تکتے رہے بولنا چالنا مختصر کر لیا”
(ف ن خ)
بڑے بھیا، بھابی بچے ابا کے ساتھ تھے۔ ہم باقی بہن بھائی آتے جاتے رہتے۔ اکثر مجھ سے پوچھتے کہ کب واپس جاؤ گے۔ میں نے ان کی حالت کے پیشِ نظر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ معلوم ہوا تو پریشان ہوگئے۔ جب بتایا کہ از خود یہ فیصلہ کیا تو بولے خدا کا شکر ہے عزت آبرو کے ساتھ ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ بظاہر کوئی بیماری نہیں تھی بڑھتی عمر کا تقاضہ۔ 92 سال کی عمر میں 2003 میں اس دیارِ فانی سے کوچ کرگئے:
“آه، رخصت ہو گیا شاعر ، ادیب، انسان دوست گونجتی تھی ہر طرف بس ایک آوازِ سروش
حاملِ ذہن رسا تھا صاحبِ قلبِ رقیق
ایسا دیوانه که فرزانوں کے اُڑ جاتے تھے ہوش
خوش طیورِ باغِ جنت ہیں کہ آیا ہمنوا
اور زمیں پر حشر برپا ہے کہ ناطق ہے خموش
(فیروز ناطق خسروؔ)
“حجِ بیت اللہ اور زیارات”
2014 میں اللہ کے فضل سے بڑے بیٹے اور اہلیہ کے ہمراہ حج کی سعادت اور حضور پاکۖ کے روضے پر حاضری نصیب ہوئی ۔
2024 میں نجف، کاظمین اور کربلا میں مقاماتِ مقدسہ کی زیارات کا شرف حاصل ہوا۔ ہر مکتبِ فکر کے لوگ نظر آئے۔ امام حسینؑ کے روضے پر کہہ گئی ایک نظم:
“میرا حسینؑ”
کل تک مرا حسینؑ تھا، میرا حسینؑ تھا
روضے پہ آکے دیکھا تو سب کا حسینؑ تھا!
اک سمت گر تھا اہلِ تشیع کا اک ہجوم
شامل ہجوم میں تھے بہت مختلف نجوم
باندھے نمازیوں میں بہت لوگ ہاتھ تھے
صف میں کھڑے ہوئے تھے، کھلے ہاتھ ساتھ تھے
طبعا” غریب بھی تھے وہ دل کے رئیس بھی
سنی شیعہ بھی ساتھ تھے، اہلِ حدیث بھی
ہندو بھی، سکھ بھی ماننے والے بھی بدھ کے تھے!
بے سدھ بھی تھے بہت سے، بہت لوگ سدھ کے تھے!
جو پڑھ چکے تھے اُس کو بھلاکر پڑھے لکھے
طالب تھے علم کے یہاں آکر پڑھے لکھے
در کے گدا بنے تھے امیر و کبیر بھی
آکر غنی ہوئے تھے یہاں پر فقیر بھی
مولا یہی ہے آپ کی مقبولیت کا راز
ہراک کے واسطے ہے یہ در معرفت کا باز
کیا شان ہے جلالت و عظمت کا آفتاب
روشن ہے درمیان ستاروں کے ماہتاب
سچ ہے کہ وجہِ خاتمِ الحاد آپ ہیں!
حق ہے کہ لاالہ کی بنیاد آپ ہیں!!
۔۔۔۔۔*….
(فیروز ناطق خسروؔ)
روضہء حسینؑ ، کربلا
Leave a Reply