Today ePaper
Rahbar e Kisan International

* بند آنکھوں کے پیچھے*

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Tuesday, March 11th, 2025

(آپ بیتی : قسط نمبر 2)

“لاہور سے خیرپور میرس”

لاہور میں ہمارا قیام زیادہ عرصہ نہیں رہا۔ ہمارے تائے زاد بھائی ابا کو عموجان کہتے تھے سو ہم نے بھی عموں جان کہنا شروع کردیا۔ والدہ کو باجی (ہمارے زمانے میں حیا کے باعث ماں ، اماں یا امی نہیں کہلوایا جاتا تھا باجی یا، آپا کہنا اکثر گھرانوں میں اچھا سمجھا جاتا تھا)۔ عموجان(ابا) کے ماموں زاد بھائی رفیع عالم صدیقی انڈیا سے ہجرت کرکے ریاست خیرپور میرس (سندھ) آباد ہوگئے تھے۔ وہ میر آف خیرپور جارج علی مراد خان تالپور کے اساتذہ میں شامل تھے، ناز ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر بھی رہے۔ بعد میں محکمہء تعلیم سندھ میں دیگر عہدوں پر بھی فائز رہے۔
ان کے اصرار پر عمو جان نے خیرپور میرس منتقل ہونے کا فیصلہ کیا سو ہم خیرپور میرس آگئے۔
ہمیں فوری طور پر جو مکان الاٹ ہوا وہ خیرپور کے مشہور محلے “علی رضا شاہ کا تھلہ” کہلاتا تھا۔ (جسٹس علی اسلم جعفری مرحوم کے مکان کے سامنے) مکان پرانا تھا۔ دیواریں سم زدہ۔ والدہ گھر میں کام کرنے والی ماسی سے کچی اینٹیں، بُھس اور بھینسوں کا گوبر منگواتیں۔ اینٹیں کوٹی جاتیں، بھس اور گوبر کو پانی میں گوندھا جاتا۔ والدہ سم زدہ دیواروں کی لپائی پُتائی کرتی نہ تھکتیں۔ چند ماہ بعد یہ عمل دھرایا جاتا۔ میں نے کبھی والدہ کو شکوہ شکایت زبان پر لاتے نہ سنا نہ یہ کہ میں کس بڑے باپ کی بیٹی ہوں( میرے نانا امروہہ کی مشہور شخصیت تھے۔ حکیم راحت علی خاں حاذقؔ امروہوی۔۔ لائف اعزازی مجسٹریٹ، نواب رامپور کے طبیبِ خاص۔ چھججی کے امام باڑے کےمتولی بھی تھے وصیت کے مطابق امام بارگاہ کی سیڑیوں کے نیچے ان کی تدفین ہوئی، تذکرہء شعرائے امروہہ، صفحہ 477 مولف جناب نقوش نقوی ) ۔
خیرپور بڑی پرامن اور خوشحال ریاست تھی۔ 1954 میں ون یونٹ کے قیام کے ساتھ ہی ایک معاہدے کے تحت ریاست کا الحاق حکومتِ پاکستان کے ساتھ ہوگیا۔ ریاست کے دور میں دو مشہور ٹیکسٹائل ملز، ماچس فیکٹری، بنارسی کپڑے کی صنعت کے لیے بنارسی کالونی اس کے علاوہ اور بہت سے فلاحی منصوبے ۔
مرزا ممتاز حسن قزلباش چیف منسٹر تھے۔ ریاست میں زیادہ تر اہلِ تشیع حضرات تھے۔ بڑی تعداد میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے لوگ یہاں آباد ہوئے۔ متروکہ زمینیں اور مکانات کلیم کے عوض الاٹ ہوئے۔ مقامی سندھی بھایوں نے اپنے نئے سندھی بھایوں کو بڑے خلوص سے خوش آمدید کہا۔ زبان سندھی لیکن اردو سے محبت کرنے والے۔
میر آف خیرپور کا محل جو فیض محل کہلاتا ہے نہایت شاندار تھا۔ باہر اندر سے دیدنی۔ عقب میں دریائے سندھ سے نکلی ہوئی نہر۔ شہر کے وسط میں بڑی نہر “میر واہ” کہلاتی تھی۔ (مزید حوالے کے لیے “تاریخِ خیرپور میرس مرتبہ حضرت نسیم امروہوی)۔
ہم سات بہن بھائیوں میں محمد حسنین پاشا، پروین منظور اور آصف پاشا مجھ سے بڑے تھے ان کے بعد میں، خسرو پاشا ۔ جاوید پاشا، نسرین افتخار عالم اور نوید پاشا چھوٹے تھے۔ نسرین اور نوید کے علاوہ باقی سب کی پیدائش انڈیا کی ہے۔ حسنین پاشا ، پروین منظور ، جاوید پاشا اور نسرین اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں۔
ابا خیرپور منتقل ہونے کے بعد محکمہ سینٹرل ایکسائز لینڈ کسٹم میں ملازم ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد سکہر پوسٹنگ ہوگئی ابا صبح تڑکے سولہ سترہ میل کا فاصلہ سائکل پر طے کرتے۔ شام کو دیر سے واپس خیرپور آتے۔ سردی، گرمی یہی معمول رہا- مجھے آج بھی ابا کے ہاتھوں میں فر کے بڑے بڑے دستانے اور گردن مفلر سے ڈھکی یاد ہیں۔ واقعی اس وقت کے لوگ بڑے جفاکش تھے۔ کچھ عرصہ بعد نوکنڈی (کوئٹہ) تبادلہ ہوگیا ہم خیرپور ہی میں رہتے رہے۔ سردی کے موسم میں جب گھر آتے تو اماں تِل کے لڈو اور شکر پارے(گٹّے) بناکر ساتھ کرتی تھیں۔
ایکسائز کی نوکری ابا کے مزاج کی نہ تھی۔ شاعر ادیب جو تھے۔ وہ نوکری چھوڑ کے محکمہء اطلاعات میں آڑٹیکل رائٹر ہوگئے، بعد میں ترقی کرتے ہوئے انفارمیشن آفیسر کے عہدے تک پہنچے۔
ہماری اماں سب کی اماؤں کی طرح بڑی سگھڑ تھیں۔ پاکستان ہجرت کے ابتدائی برس بڑی آزمائش کے تھے ۔ابا کی تنخواہ بھی اتنی زیادہ نہ تھی۔ ہم سات بہن بھائی۔ گھر میں نہ گیس تھی نہ بجلی۔ رات کو لائٹین اور تیل کی کُپّی جلا کرتی۔ لائٹین کا شیشہ جب تڑخ کر الگ ہوتا تو میں آٹے کی لئی بناکر مومی کاغذ سے جوڑتا۔ اماں عید بقرعید ہمارے کپڑے سیتیں۔ ابا لٹھے کا بڑا تھان اور نیلی پاپلین لے آتے۔ ہم بھایوں کے پاجامے اور قمیصیں اماں سیتیں۔ رات کو کپڑے تہہ کرکے ہم تکیوں کے نیچے رکھتے تاکہ صبح شکنیں نہ ہوں۔ پھر کوئلے کی استری آگئی۔
باورچی خانے میں چولہے کے اندر لکڑیوں کی آگ پر کھانا پکتا۔ سردیوں میں ہم اپنی اپنی لکڑی کی پٹری پر بیٹھ کر وہیں کھانا کھاتے۔۔گرم گرم روٹیاں اماں پکاکر دیتی جاتیں۔۔ بھوک بھی بہت لگتی تھی۔ ناشتہ میں پراٹھے اور کبھی رات کا بچا سالن ، ملائی یا ہری چٹنی کے ساتھ۔ انڈے ہفتے میں ایک دو بار ہی۔ باقی وقت کا کھانا سبزی یا گائے کا گوشت۔ بکری کا گوشت البتہ جب کوئی بیمار ہوتا۔ جب نیا نیا ڈالڈا گھی بازار میں آیا تو اس کا استعمال چھپ چھپا کر ہوتا۔ اصلی گھی کے ساتھ جب ڈالڈ بھی سودے میں آنے لگا تو دکاندار کو خاص طور سے کہا جاتا کہ تھیلے میں بند کرکے دے اس کے لیے الگ سے کپڑے کا تھیلا جاتا ۔
مجھے گرم روٹی پر اصلی گھی چپڑ کر کھانا بہت پسند تھا۔ لیکن روز روز یہ عیاشی ممکن نہ تھی۔ ایک روز میں نے بہت سا گھی ایک شیشے کی برنی میں انڈیل کر لکڑیوں والے اسٹور میں چھپا دیا۔ دوپہر میں جب سب سوجاتے تو میں چپکے سے کچن میں جاتا، انگاروں پر روٹی کڑک کرتا اور اسٹور میں آکر دروازہ بند کرکے چوری کیا اصلی گھی روٹی پر چپڑ کر “رول” بناتا اور مزے مزے لے لے کر کھاتا۔ وہ مزا آج کے “چکن رول” میں بھی نہیں ملتا۔
ہر چیز کو کھوجنا، توڑنا اور پھر جوڑنے کی کوشش کرنا میرا مشغلہ تھا۔ بڑے بھائی اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف۔ چھوٹے بہت چھوٹے۔ جب میری شرارتیں بڑھنے لگیں تو مجھے مکتب میں داخل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔(جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International