(آپ بیتی : قسط نمبر 3)
“خسروؔ پاشا سے فیروز ناطق”
ایک روز والد صاحب ہمیں اسکول میں داخلے کے لیے لے گئے۔ اسکول (مکتب)نیم کے پیڑوں کےنیچے بڑی بڑی چئایوں پر جما ہوا تھا۔۔محلے کے , چالیس، پچاس , مختلف عمروں کے بچے
زور زور سے اسباق کی گردان میں مصروف تھے۔۔ادھیڑ عمر کے ماسٹر معجز حسین امروہوی (نام بعد میں معلوم ہوا، یاد ہہت عرصے بعد ہوا) اپنے نوجوان نائب کے ساتھ پڑھانے میں مصروف تھے۔۔کبھی کبھی کھجور کی نازک سے چھڑی سے کسی کی خبر بھی لے لیتے تھے۔۔
والد صاحب کو دیکھتے ہی سب بچوں کو خاموش کرادیا گیا۔۔بچے بھی سمجھ گئے کہ نیا کبوتر آگیا ہے لیکن ان کی نظریں ہم سے زیادہ بڑے بھائی کے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کے لفافوں پر تھیں۔۔سب جانتے تھے کہ “بسم اللہ کا سامان ہے۔
غرض ہم اپنے ہیڈ ماسٹر کے حوالے اس روائتی جملے کے ساتھ ہوئے کہ قبلہ اس بچے کا گوشت پوست آپ کا ہڈیاں ہماری۔۔ہیڈ ماسٹر صاحب نے ہمیں اپنے سامنے بچھی دوسری اکلوتی کرسی پر بٹھایا ۔ میز کی دراز سے کاغذ قلم نکالا، بڑے پیار سے ہمارا نام پوچھا ہم نے جھٹ سے بتایا خسرو پاشا ۔ فورا” ہی ابا نے تردید کرتے ہوئے کہا فیروز ناطق لکھیں ۔ ہم نے احتجاج کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ہیڈ ماسٹر صاحب نے ڈانٹ کر کہا بڑوں کے بیچ میں نہیں بولتے،۔۔۔۔۔ یہ تھا ہمارا پہلا سبق۔ آج بھی ہم حیران ہوتے ہیں کہ سب بھائیوں کے نام پاشا پر ہیں اور ہم فیروز ناطق۔ شاید کوئی الہامی طاقت تھی جس نے ابا کو یہ بتادیا ہوگا کہ یہی بیٹا تمہارے ادبی ورثہ کا وارث ہوگا:
حاصل کسی کسی کو ہوئی قدرتِ سخن
ذوقِ سخن وگرنہ برابر کا سب میں تھا
(ف ن خ)
اس روز سے ہم خسرو پاشا سے فیروز ناطق ہوگئے۔۔
ہیڈ ماسٹر صاحب نے داخلہ فارم ایک طرف رکھا، میز کی دراز سے بغدادی قاعدہ نکالا اور ہماری انگلی اس پر رکھ کر بلند آواز سے پوری بسم اللہ پڑھوائی۔۔ مبارک مبارک کے شور کے ساتھ ہی بھائی نے بڑے بڑے بتاشے تقسیم کرنا شروع کردیے۔۔البتہ دو لفافے الگ ماسٹر صاحب کی میز پر رکھے لیکن ماسٹر صاحب نے وہ بھی بچوں میں تقسیم کروادیے۔
یہ تھے ہمارے پہلے استاد۔۔انتہائی شریف النفس، نمازی پرہیز گزار اور وہم کی حد تک پاکی کے شکار، قبلہ ماسٹر معجز حسین امروہوی۔ راستہ چلتے اگر کسی سے ہاتھ ملانا پڑ جاتا تو اپنے اس ہاتھ کو جسم سے فاصلے ہی پر رکھتے تا وقتیکہ اسے پاک نہ کرلیں۔ دور سے معلوم ہوجاتا آج ہیڈ ماسٹر صاحب نے کسی سے ہاتھ ملایا ہے۔
چند ہی روز میں ہم اپنی تختی پوتنے اور ٹاٹل کے قلم سے ” الف بے” لکھنے میں ماہر ہوگئے۔البتہ جب سیاہی کی دوات چٹائی پر اوندھی ہوجاتی تو ڈانٹ کے ساتھ پٹائی ضرور ہوتی۔پھر چٹائی بھی صاف ہم ہی کرتے۔ سب سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ ہیڈ ماسٹر صاحب کے اپنے برخوردار کے حصے میں آتی چند نامہذب الفاظ کے ساتھ۔۔” بندرو، بڑ۔۔د” وغیرہ۔
{ یادوں میں ہے زندہ ابھی مکتب کی پٹائی
جو نقش ہیں گالوں پہ وہ چانٹے نہیں جاتے
وہ فرش چٹائی کا، سیاہی کے وہ دھبے
تختی پہ لکھے حرف بھی میٹے نہیں جاتے
ٹاٹل کا قلم آج بھی مل جاتا ہے خسروؔ
جوہڑ کے کنارے لگے سینٹھے نہیں جاتے}
مکتب کے ابتدائی چند سال تختی پوتنے، خوش خطی کی مشق کرنے اور ٹاٹل کے قلم کی جیبھ پر قط لگانے میں ہی گزر گئے۔ اکثر بچے، (ہم بھی ان میں شامل تھے) کبھی کبھار ماسٹر صاحب کی نظر بچاکر برابر کے ایک بڑے سے مکان کا رخ کرتے جہاں آنگن میں کجھور، آم کے پیڑ اور بیری کی جھاڑیاں تھیں ۔ دروازہ زور زور سے پیٹنے پر ایک باجی بڑے پیار سے ہمیں اندر لیجاتیں۔انہیں پتہ تھا کہ ہم مکتب سے آئے ہیں اور کھٹے میٹھے بیروں کی کشش کھینچ لائی ہے۔ جلدی جلدی وہ ہمیں بیر توڑ کر دیتیں اس شرط پر کہ ہم واپس مکتب چلے جائیں گے۔ جیبوں میں بیر ٹھونسے ہم مکتب کا رخ کرتے ماسٹر صاحب کی نظر اگر کسی پر پڑجاتی تو ان کی قمچی کمر کی خبر لیتی عموما” وہ ناک پر عینک ٹکائے بچوں کی تختیوں پر پینسل سے لائنیں لگانے میں مصروف ہوتے۔ ویسے کمال تھا کبھی کوئی لائن ٹیڑھی نہ ہوتی۔۔بغیر فٹے (اسکیل) بالکل سیدھی لائین وہ اور چھوٹے ماسٹر صاحب لگانے کے ماہر تھے۔ اس مکتب میں میرا ایک دوست بن گیا اقبال نام تھا۔ ایک دن وہ مجھے اپنے گھر لے گیا ۔ اس کے والد میر آف خیرپور کے یہاں ملازم تھا۔ فیض محل کےاحاطے میں، گھنے پیڑوں کے نیچے اس کا چھوٹا سا مکان تھا۔ مکان کے باہر ایک صاف پانی کا نالہ بہتا تھا شاید فیض محل کے کئی ایکٹر پھیلے باغ کو پانے دینے کے لیے۔
ہم اس نالے کے کنارے کھیلتے ۔کبھی کاغذ کی کشتیاں بناتے تو کبھی “آک کے پودے calotropis procera کی بیضوی سی کلی
” میں چار چھوٹی چھوٹی سینکیں لگا کر بھینس بناتے اور بہتے پانی پر تیرنے کے لیے چھوڑ دیتے اور خوش ہوتے۔ اقبال کی بہن کھانے کے لیے آواز دیتیں۔ اقبال اندر سے کھانا لے آتا۔ بڑے بڑے دو پراٹھے اور ان پر آم کا اچار۔ ہم اپنی اس چھوٹی سے “نہر” کے کنارے بیٹھ کر کھاتے۔اس وقت پکنک کیا ہوتی ہے ہمیں پتہ نہ تھا لیکن آج بھی درختوں کے جُھنڈ میں گھری وہ چھوٹی سی آبجو ، ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور پراٹھوں پر آم کے اچار کی لذت بھلائے نہیں بھولتی۔
یاد بچپن کی بھی تازہ کرلیں
کون اُس پیڑ کو چُھو کر آئے
(فیروز ناطق خسرو(جاری ہے)
Leave a Reply