Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بند آنکھوں کے پیچھے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Thursday, March 13th, 2025

(آپ بیتی..قسط نمبر 4)
“چونی (چار آنے) کی عیاشی”

ہمارے مکتب کی پڑھائی ابھی جاری تھی۔
اردو قاعدہ ہم نے بہت جلدی حفظ کرلیا تھا۔ جی حفظ کرلیا۔ حروفِ تہجی سے لے کر الفاظ اور جملے بھی ہمیں رٹ گئے تھے۔ اس میں ہمارا یا ہمارے ماسٹر صاحب کا کمال نہیں تھا۔ اصل میں ہماری اماں مسلمہ خاتون نہاں ہماری اتالیق تھیں۔ یوں تو ہر ماں کی گود بچے کا پہلا مکتب کہلاتی ہے لیکن ہماری اماں عربی، فارسی اور اردو میں خود کفیل تھیں۔ اپنے زمانے میں گلستاں بوستاں پڑھی ہوئیں تھیں۔ شاعری کا ذوق و شوق بھی تھا جو انہیں اپنے والد سے ملا۔ مکتب میں داخلے سے پہلے ہی ہم بغدادی قاعدہ اماں سے پڑھ چکے تھے۔ کئی بار کی دھرائی نے صفحے نمبر تک حفظ کروادیے تھے۔ ہمارے ماسٹر صاحب ہم سے بہت خوش تھے۔ جس وقت ان کا موڈ آنکھیں میچ کر کچھ دیر کے لیے دل و دماغ کو سکون پہنچانے کا ہوتا تو ہم ماسٹر صاحب کی ہدایت پر بچوں کے درمیان گھوم پھر کر ان کے کام کی نگرانی کرلیا کرتے۔ ایسے میں چھوٹے ماسٹر جی بھی کسی کام سے نکل جاتے۔
ایک دن پتہ چلا کہ مکتب جانے کی اب ضرورت نہیں۔ چند روز بعد ہمیں باقاعدہ ایک اسکول میں داخل کروادیا گیا۔ سلطان المدارس نام کا یہ اسکول اس وقت بھی خیرپور میرس کے چند نمایاں اسکولوں میں شامل تھا۔
ہر کلاس میں کم از کم پچاس بچے ۔اچھی بات یہ تھی کہ سب کے لیے اسکول ڈیسک مہیا تھے۔ ایک ڈیسک پر دو دو بچے۔ خواہ آپ کا “ہم ڈیسک” آپ کو پسند ہو یا نہ ہو گزارا کرنا ہوتا تھا۔ ماں باپ کی پسند سے بندھن میں بندھے شریف جوڑوں کی طرح۔ یہاں ماں باپ کی بجائے استاد کی مرضی کو دخل تھا۔ استاد بھی تو باپ برابر ہوتا ہے۔ پہلے تین چار دن تو کچھ سمجھ میں نہیں آیا پھر ہم بھی باقی بچوں کے ساتھ گردن ہلا ہلا کر کندھوں کو جھٹکے دے کر ” الف زبر آ، الف زیر اے ، الف پیش او” کی گردان میں مصروف ہوگئے۔ حساب کے پیریڈ میں “دو اکم دو اور دو دونی چار” کی مشق میں بھی ماہر ہوگئے۔ اس اسکول میں رہتے ہوئے ہم نے تیسری جماعت تک تعلیم حاصل کی۔
(آج ہمارا یہ اسکول جامعہ عربیہ سلطان المدارس کالج کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے)۔
چوتھی جماعت پڑھنے کی نوبت آنے سے پہلے ہی ایک روز ہمیں پرانے مکتب کی طرح یہاں سے بھی اٹھالیا گیا۔ چوتھی جماعت سے براہِ راست پانچویں کلاس میں داخلہ ہوگیا۔ چوتھی جماعت نہ پڑھنے کا نقصان آج تک پورا نہ ہوسکا۔ حساب اور انگریزی کے مضامین میں میرے نمبر ہمیشہ کم آئے۔ اپنے بچوں کو خواہ کتنے ہی ذہین ہوں کبھی ڈبل پروموشن مت دلوایے گا۔
ہمارا نیا اسکول خیرپور میرس کا مشہور و معروف ناز ہائی اسکول تھا۔ میر آف خیرپور کے والد کے نام پر قائم اسکول کی یہ عمارت اُس وقت اپنے ڈیزائن اور تعمیر کے لحاظ سے پاکستان بھر میں مشہور تھی۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ داخلے کا امتحان بھی ہوگا۔ اسکول ہمارے گھر سے چار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ ہم اپنے بڑے بھائی کے ساتھ سائکل پر روانہ ہوئے۔ امتحان کی تیاری بھی اچھی طرح خود ہی کرلی تھی۔ شاید تاریخ یا جغرافیہ کی کوئی کتاب تھی پانچویں جماعت کے لیے۔ اس کا پہلا صفحہ خوب رٹ لیا تھا۔رٹنے کے تو ہم ماہر تھے ہی۔ بعد میں پتہ چلا کہ ہم کسی سبق کی بجائے مولف کا پیشرس یاد کرتے رہے تھے۔ خیر اس روز ہمارا داخلہ پانچویں کلاس میں ہوگیا۔ بغیر کسی ٹیسٹ کے۔ ہمارے والد کے فرسٹ کزن اسکول کے ہیڈ ماسٹر جو تھے۔ اسکول یونیفارم ملیشیا کپڑے کی تھی۔ کلف لگے کپڑے اچھے لگتے تھے۔
روز ہم بڑے بھائی کے ساتھ سائکل پر آتے جاتے تھے کچھ دن بعد منجھلے بھائی کے ساتھ پیدل آنے جانے لگے۔ ایک روز منجھلے بھائی کا اسکول جانے کا دل نہیں تھا۔ چلتے چلتے اچانک سڑک کے کنارے پودوں کے لیے بنے اینٹوں کے ایک جنگلے میں کود گئے ہمیں بھی ساتھ ہی رکھا۔ جنگلے کے سوراخوں سے جھانکتے ہوئے بولے دیکھو وہ ماسٹر رحمت اللہ جا رہے ہیں، بڑے ظالم ہیں اگر دیکھ لیتے تو سڑک پر ہی دُھنائی شروع کردیتے۔ ماسٹر صاحب پیڈل مارتے تیزی سے سائکل دوڑاگئے۔ ہم بھی جنگلے سے باہر نکل آئے۔ مجھے اپنی پہلی جماعت کا ایک سبق یاد آرہا تھا۔ احمد اور حامد دو بھائی تھے۔ بڑا بھائی احمد اسکول نہ جانے کی ضد کر رہا تھا چھوٹے بھائ نے بڑے کی بات نہ مانی اور اسکول چلا گیا۔ میں نے بھی اپنے منجھلے بھائی کی اسکول ناغہ والی بات ماننے سے انکار کردیا اور بستہ گردن میں ڈالے تیز تیز قدموں سے اسکول کی طرف چل پڑا۔ منجھلے بھائی بھی چار و ناچار ساتھ چل دیے۔ انہیں یہ ڈر تھا کہ میں گھر بتادوں گا۔
(درسی کتب کے اسباق بھی شخصیت کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ کاش ہمارے نصاب مرتب کرنے والے محکمہء تعلیم کے کرتا دھرتا اس پر دھیان دیں)۔
ہم اسکول جانے کے لیے بڑی سڑک چھوڑ کر درمیان سے کھیتوں سے ہوکر گزرا کرتے۔ فاصلہ کچھ کم ہوجاتا۔ ایک روز اسکول سے واپسی میں دیکھا کہ کھیت میں پانی بھرا ہوا ہے اور چند لڑکے گننےکے ایک ایک فٹ لمبے ٹکڑے نکال رہے ہیں جو بونے کی غرض سے زمین میں دبائے گئے تھے۔ ہم نے بھی چار ٹکڑے نکال لیے اتنے میں رکھوالے کو شور مچاتے کلہاڑی لیے آتے دیکھا۔ جلدی جلدی چاروں ٹکڑے قمیص اٹھاکر شلوار میں اُڑس لیے اور سڑک کی طرف دوڑ لگادی۔ سڑک تک پہنچتے پہنچتے چاروں گننے کے ٹکڑے سرسراتے ہوئے شلوار سے نکل گئے۔ خیر سے بدھو گھر کو آئے۔
ناز ہائی اسکول سے ہم نے 1962 میں میٹرک کیا۔ جب تک خیرپور میرس ریاست رہی، اسکول فیس برائے نام تھی۔ کتابیں مفت ملتی تھیں۔ ملٹری ٹرینگ کے لیے باقاعدہ عملہ ایک ریٹائرڈ آرمی آفیسر کی سر براہی میں موجود تھا۔ پہلے ڈمی رائفل سے لڑائی کے داؤ پیچ سکھائے جاتے۔ پھر 2.2 کی گن سے نشانہ بازی۔ ٹرینگ کے دوران سردیوں میں چائے اور گرمیوں میں دودھ ملتا۔ پیشاوری چپل اور کھیلوں کے لیے کرمچ شوز۔
1962 میں ہمارا اسکاوٹس دستہ تھرڈ پاکستان نیشنل جمبوری میں شرکت کی غرض سے اسکاؤٹ ماسٹر جناب جان محمد کی سربراہی میں لاہور (والٹن کیمپ لگا) گیا۔ ہمارے ہم جماعت جاوید علی شاہ (سابق سینٹر پیپلز پارٹی) ، ان کے چھوٹے بھائی پرویز علی شاہ (مرحوم)، پروفیسر خورشید ، ڈاکٹر باقری جیالوجسٹ وغیرہ ہمراہ تھے۔ کیمپ فائر کے دوران ہمارے دستے نے دیگر آئٹم کے ساتھ ایک منفرد پریڈ شو پیش کیا۔ پریڈ کمانڈر نے سندھی میں کاشن دیے۔ Left Right اور Left turn, Right turn کی جگہ
{ساڄي.. کاٻي..ساڄي.. کاٻي..
ساڄي موڙ.. کاٻي موڙ}
سب نے اسے بہت پسند کیا۔ اردو میں پریڈ کے کاشن افواجِ پاکستان میں تو برسوں بعد رائج ہوئے۔
ناز ہائی اسکول کے ہمارے استاد بھی بہت محنتی اور قابل تھے۔ ایک کلاس ٹیچر کو ہم “ڈنڈا آیا” کہتے تھے۔ پہلا پیرڈ انہی کا ہوتا۔ ان کے آنے پر سب کھڑے ہوجاتے اور ہدایت کے مطابق اپنا سیدھا ہاتھ پھیلائے رکھتے۔ ماسٹر صاحب ایک سرے سے دوسرے سرےتک کھٹ کھٹ کرتے پھیلے ہاتھوں پر ڈنڈا رسید کرتے جاتے بغیر کسی خطا کے۔ گنتی مکمل ہونے پر بیٹھنے کی اجازت ملتی۔ اُن کے خیال میں اس طرح تمام دن “ڈسپلن” قائم رہتا تھا۔
ہمارے ایک اور بہت عمر رسیدہ استاد تھے۔ اسکول کے بہت سے ٹیچر ان کے شاگرد تھا۔ جب بادل آتے تو ہم شور مچاتے چھٹی چھٹی ، ماسٹر صاحب مسکراکر دیکھتے۔ جب ان کی مسکراہٹ دیکھ کر زیادہ شور ہوتا تو اٹھ کر ہیڈ ماسٹر کے آفس جاتے تھوڑی ہی دیر میں ٹن ٹن ٹن ۔۔۔۔ چھٹی ہوجاتی۔
اپنے ان ماسٹر کی ایک خصوصیت میرے لیے بہت حیران کن تھی۔ بلیک بورڈ پر سبق کے سوال جواب لکھنے کے بعد آرام سے کرسی پر بیٹھ کر اخبار پڑھتے رہتے۔ چہرہ اخبار کے پیچھے ۔ بچے شور مچاتے کبھی کم، کبھی زیادہ۔ بڑے لڑکے اکثر کھڑکی سے کود کر پیڑوں سے کھجوریں توڑ کر لے آتے۔ کچھ دیر بعد ماسٹر صاحب اٹھتے اور سیدھے انہیں لڑکوں کی طرف جاتے اور پیٹھ پر دوچار سخت قسم کے دھپ رسید کرتے۔ یہ تقریبا” روز ہی کا تماشہ تھا۔ میں بڑا حیران ہوتا کہ ماسٹر صاحب تو اخبار منہ کے سامنے پھیلائے پڑھتے رہتے ہیں انہیں یہ سب کیسے معلوم ہوتا ہے۔۔ ایک روز ہاف ٹائم میں جب ماسٹر صاحب کے پیچھے پیچھے سب بچے بھی نکل گئے میں ماسٹر صاحب کی کرسی پر اخبار چہرے کے سامنے پھیلا کر بیٹھ گیا کہ آج یہ معمہ بھی حل کرکے دیکھوں۔ بیساختہ مجھے ہنسی آگئی۔ ماسٹر بھی کیا ذہین شخص تھے۔ اخبار کے بیچوں بییچ ایک چھوٹا سا سوراخ تھا اور کلاس روم کا سارا منظر نظروں کے سامنے ۔ واہ ماسٹر صاحب واہ۔ سلام ہے آپ کی دانشمندی پر۔
اب ایک اور ماسٹر صاحب کا ذکرِ خیر ۔ یہ تھے ماسٹر رحمت اللہ لیکن بچوں کے لیے سراپا زحمت۔ ویسے تھے یہ بھی بڑے قابل لیکن جلاد صفت۔ ذرا سی غلطی پر کھجور کی شاخوں سے مار مار کر بھرکس نکال دیتے۔ مجال ہے کہ کوئی بچہ شکایت کرے یا آج کل کی طرح ماں باپ لڑنے مرنے چلیں آئیں ۔
ایک روز ماسٹر صاحب بورڈ پر سوال لکھ رہے تھے کہ کسی نے شرارت سے چاک کا ٹکڑا پھینک مارا۔ ماسٹر صاحب یکدم پلٹے، سب کو سانپ سونگھ گیا تھا۔ چاک مارنے والے کو میں نے دیکھ لیا تھا۔ ماسٹر صاحب کو بھی کچھ اندازہ ہوگیا تھا۔ میری طرف متوجہ ہوکر کہنے لگے کہ تم بتاؤ۔ مانیٹر کی ذمہ داری ہے ڈسپلن قائم رکھنا۔ میرا جواب تھا کہ مجھے علم نہیں۔ وہ لڑکا بھی ملتجی نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ ماسڑ صاحب کا غصہ عروج پر تھا۔ کھجور کی لکڑی میرے ہاتھوں پر ٹوٹتی رہی۔ ماسٹر صاحب کا جلال کم نہ ہوا ایک ہی سوال ، بتاؤ کس نے چاک مارا۔ مزید کجھور کی لکڑیاں منگوائی گئیں۔ سرخ ہوتے ہاتھوں میں مار کے نشانوں میں شدید جلن ہورہی تھی ۔ ہاف ٹائم کی گھنٹی بجتے ہی ماسٹر صاحب غصے میں بھرے باہر نکل گئے۔۔
لڑکے میرے گرد جمع تھے۔ کوئی میرے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا تو کوئی بہتے ہوئے آنسوؤں کو صاف کرنے میں لگا تھا۔ میرے سیدھے ہاتھ کی انگلی کے ایک جوڑ کی ہڈی قدرتی طور پر ابھری ہوئی ہے۔ ایک لڑکے نے دیکھا تو چلانے لگا فیروز کی انگلی ٹوٹ گئی۔ اسی اثنا میں کسی نے ماسٹر صاحب کو خبر کی۔ وہ پریشان ہوکر دوڑے ہوئے آئے۔ جیسے ہی انہوں نے میری انگلی کو ہاتھ لگایا میں ہائے ہائے کرنے لگا۔ اب میری باری تھی۔ ماسٹر صاحب بہت گھبرا گئے تھے۔ انہیں شاید یاد آگیا ہوگا کہ یہ تو ہیڈ ماسٹر کا بھتیجا ہے۔ کسی کو بھیج کر کینٹین سے دودھ منگوایا۔ میں اس دوران مسلسل درد سے کراہتا رہا۔ ماسٹر صاحب نے جیب سے چونی(چار آنے) نکال کر دی۔ اس زمانے میں یہ خاصی رقم ہوتی تھی۔ پیار کرتے ہوئے بولے بیٹا گھر جاکر آرام کرو۔ کل بھی چھٹی کرنا۔
میں نے بستہ سنبھالا، کچھ دور تک آہستہ آہستہ چلا پھر یکدم جو دوڑ لگائی تو سڑک پر جاکر دم لیا۔ ایک آنہ میں سواری ٹانگے میں بیٹھ کر مارکیٹ تک آیا۔ دوسرے آنہ کی مونگ پھلی سے جیبیں بھریں۔ تیسرے آنہ کا ٹھنڈا ٹھار رنگین شربت کا گلاس پیا۔ آخری آنہ اگلے دن کی چھٹی کے لیے بچا کر رکھا۔ ۔اور آرام سے مونگ پھلی کھاتا گھر آگیا۔ اس دن کے بعد ماسٹر رحمت اللہ نے مجھے کبھی سزا نہیں دی۔ آج بھی جب میں اپنی انگلی کے جوڑ کی اس اُبھری ہوئی ہڈی دیکھتا ہوں تو چونی (چار آنے) کی عیاشی کا نشہ پھر سے طاری ہوجاتا ہے۔ (جاری)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International