Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بند آنکھوں کے پیچھے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, March 16th, 2025

(آپ بیتی :قسط 6)
فیروز ناطق خسرو

“خیرپور میرس کا علی مراد ٹاکیز، نیر سلطانہ کا درد بھرا سین، ہمارے آنسو، سنگچور سانپ”
یہ سن پچاس کی دھائی کا زمانہ بہت سی کھٹی میٹھی یادوں کا خزانہ۔
ابھی ہم اپنے پرانے گھر ہی میں تھے۔ وہی محلہ “علی رضا شاہ کا تھلہ”۔۔ ہمارے گھر کے سامنے ہی ، سندھ کے معروف قانون داں جسٹس علی اسلم جعفری(فرزند جناب علی مطاہر جعفری ایڈوکیٹ) کا دو منزلہ مکان تھا۔ علی مطاہر صاحب کے منجلھے صاحبزادے علی عالم جعفری ہم جماعت تھے۔ ہم دونوں ہی اس وقت ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔
اسکول سے واپسی پنج گولہ چوک پر ہی ہوتی ٹانگہ والا وہیں تک سواریاں لاتا۔ بڑی پر رونق جگہ تھی۔ ٹھنڈے شربت کی رنگین بوتلوں سے سجا ٹھیلہ تو دوسری طرف بھنے ہوئے چنے اور میٹھی کھیلیں بیچنے والا ، پاس ہی دودھ ملائی والی قلفی اور بیچ میں مجمع لگائے “بیٹا جمہورا” کے کرتب دکھانے والا۔ گھر کے راستے کی رکاوٹ بن جاتے۔ بڑی مشکل سے مداری کا کرتب دیکھنے کے لیے لوگوں کے دائرے میں منڈیا اندر گھسانے کا موقع مل جاتا۔۔ بیچ دائرے، زمین پر ایک چھوٹی ڈبیہ اور بڑی سی پٹاری رکھی ہوتی۔ پٹری سے سانپ بین کی آواز سے لہراتے ہوئے پھن نکالتے اور بین کی آواز بند ہوتے ہی دوبارہ پٹاری میں بند کردیے جاتے ۔ مداری ساتھ ہی اس چھوٹی ڈبیا کی طرف اشارہ کرکے بتاتا کہ اس میں “سنگ چُور” بند ہے۔ بقول اس کے اگر یہ سانپ پتھر پر بھی اپنا پھن مارے تو پتھر چکنا چُور ہوجائے۔ ایک بار ہم بہت دیر تک کھڑے رہے وہ چھوٹی ڈبیا جس کے کھلنے کا اعلان مداری ہر چند منٹ بعد کرتا، نہ کھلتی۔ سنگ چور سانپ کے دیدار کی حسرت بھی حسرت ہی رہتی۔
علی عالم کے ایک معذور چچا تھے رضا احمد ان کا نچلا دھڑ شاید پیدائشی فالج زدہ تھا۔ ایک ملازم انہیں گود میں لے کر جاتا جہاں جانا ہوتا۔ وہ کمرے اور دالان میں ایک چھوٹے گول مونڈھے (سرکنڈوں سے بنا) کی مدد سے خوب تیزی سے اپنے بیشتر کام بھی نبٹالیا کرتے۔۔اللہ نے ذہن بھی بڑا خلاق عطا کیا تھا۔ کئی کتابیں، گھریلو ٹوٹکے ، معلوماتِ عامہ کی تصنیف کیں۔ عالم سے معلوم ہوا کہ خیرپور کا مشہور سنیما مراد ٹاکیز ان کے چچا نے ٹھیکے پر لےلیا۔ ہفتے میں ایک آدھ بار میں اور عالم اسکول کی چھٹی کے بعد گھر والوں کو بتائے بغیر سنیما جاتے۔ گیٹ کیپر کو عالم اپنے چچا کا بتاتا اور ہم دونوں بے ملکی نواب، اکڑتے اٹھلاتے ہوئے باکس میں جا بیٹھتے ۔ جب بھی کوئی غمگین سین آتا اور ہیروئن دکھ بھرا گیت گاتی ہمارے دل بھر آتے۔ مجھے ان ہیروئن میں سے صرف نیر سلطانہ بہت اچھی لگتی تھی ۔ ہم دونوں تھوڑی دیر بعد ہی آنسو پونچھتے سنیما ہال سے باہر آجاتے۔ مجھے اس وقت اپنی اماں بہت یاد آتیں۔ گھر آکر ان سے لپٹ کر بھی روتا۔ وجہ بتانے پر خوب ڈانٹ پڑتی۔ جلد ہی یہ راز کھل گیا اور سینما کے گیٹ کیپروں کو بھی ہمیں اندر نہ جانے کی سختی سے ہدایت کردی گئی۔
یوں ہمارا اور نیر سلطانہ کا یک طرفہ یہ رومانس جلد ہی داغِ مفارقت دے گیا.(جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International