Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بند آنکھوں کے پیچھے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Wednesday, March 19th, 2025

(آپ بیتی :قسط 7 تا 11)

7-“اے مرے دل کہیں اور چل”

انہی دنوں ساحر کا یہ گیت بہت مشہور ہو رہا تھا۔ ہمارے محلے کی ایک دکان پر اکثر گرام فون پر یہ ریکارڈ لگا ہوتا۔ ایک روز اماں نے میلاد کا بلاوہ دینے کے لیے مجھے پڑوس میں بھیجا۔ میرے ساتھ چھوٹا بھائی بھی تھا۔ وہ میرے پیچھے چل رہا تھا۔ گلی میں سڑک کنارے لگے ایک لیمپ کی مدہم سی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ مکانوں کے باہر گندے پانی کی حوضیاں بنی ہوتی تھیں جنہیں صبح سویرے میونسپلٹی کا جمعدار (بھنگی) صاف کرجاتا تھا۔ ہمارے چھوٹے بھائی اس وقت بڑی موج میں تھے” ہلکے سروں میں ” اے مرے دل کہیں اور چل” گنگنارہے تھے۔ مجھے گانے کبھی پسند نہیں رہے۔ میں نے چاہا کہ انہیں منع کروں،

اچانک گانے بند ہوگیا۔ قریب ہی سے گڑپ گڑپ کی آوازیں سنائی دیں۔ جھک کے دیکھا تو ہمارے چھوٹے بھائی حوضی میں اچھتے نظر آئے۔ بڑی مشکل سے کھینچ تان کر نکالا۔ سر تا پا گندی کیچڑ میں لتھڑے ہوئے… پھر اس کے بعد ہم نے ان کے منہ سے “اے مرے دل کہیں اور چل” کبھی نہیں سنا۔

8۔”ساجن پنساری اور سوڈا واٹر بوٹل”

ہماری اماں کے کبھی کبھی معدے میں بہت سخت درد اٹھتا (کافی بعد میں علم ہوا کہ پتہ میں پتھری ہے،)۔ جب درد زیادہ ہوتا تو کہتیں کہ سوڈے کی بوتل لادو۔ گھر سے قریب ہی ساجن نام کے پنساری کی دکان تھی۔ سوئی سے لے کر کھانے پینے کی تمام چیزیں اس کی گودام نما دکان میں موجود تھیں۔ ساجن کی ایک آنکھ خراب تھی ، سنا تھا کہ پتھر کے ڈھیلا پڑا ہوا ہے۔ ڈر بھی لگتا تھا اسے دیکھ کر ۔ اس زمانے سوڈے واٹر کی شیشے کی بوتل ہوتی تھی اور بوتل کی گردن میں ایک شیشے کی گولی پھنسی ہوتی تھی۔ جب استعمال کرنا ہوتا تو ہماری اماں کھجور کے پنکھے کی ڈنڈی زور سے گولی پر مارتیں، گولی اندر گرجاتی اور بوتل کا منہ کھل جاتا۔ میں جب بھی ساجن کی دکان سے سوڈا واٹر کی بوتل لیتا تو اس کی آنکھ میں پھنسی پتھر کی گولی کو ضرور دیکھتا لیکن پنکھے کی ڈنڈی سے صرف سوڈے واٹر کی بوتل میں پھنسی گولی کا علاج ہی ممکن تھا۔

9۔”مکان کی کچی چھت ،پتنگ بازی اور غلیل”

مجھے بچپن میں تین چیزوں کا شوق جنون کی حد تک تھا۔ چھت پر جاکر پتنگ اڑانا ، غلیل سے نشانہ لگانا اور کہانیاں سنانا اور پڑھنا۔
ایک روز میں دوپہر میں دھوپ سے بے نیاز چھت پر پتنگ اڑا رہا تھا کہ ابا اوپر آگئے اور ڈانٹ ڈپٹ کرنے لگے پتنگ کی ڈور میرے ہاتھوں سے چھین لی اس وقت میں پینچ لڑانے میں مشغول تھا۔ مجھے حیرت اس وقت ہوئی جب ابا نے مزید ڈانٹنے کا ارادہ ترک کرکے پینچ لڑانے لگے ۔۔ ذرا سی دیر میں مخالف پتنگ نہ صرف کاٹ دی بلکہ بڑی مہارت سے اسے اپنی پتنگ میں الجھا کر لے آئے۔ س روز پتہ چلا کہ ابا کبھی بڑے ماہر پتنگ باز رہ چکے تھے۔ اس دن کے بعد سے ہمیں پتنگ بازی کی اجازت مل گئی لیکن شام کے ٹھنڈے وقت وہ بھی تھوڑی دیر۔
بارشوں کے موسم میں جب پرنالے سے گدلا پانی نیچے صحن میں گرتا تو ابا بہت غصہ کرتے کہ کود کود کر چھت کی مٹی ادھیڑ دی۔چھت کمزور کردی۔۔ جب تک پرنالے سے صاف پانی نہ آجاتا ہماری جان پر بنی رہتی۔
جب شعر کہنا شروع کیا تو یہ خیال کچھ اس طرح علامت بن کر غزل کی زینت بنا:
بارش ہوتے پچھلا پہر بھی گزرا ہے
پرنالے کا پانی اب تک گدلا ہے

10۔”غلیل ، کوا، شعر”
آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ ان تین مختلف چیزوں کا آپس میں کیا تعلق۔ تو صاحبو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میرے ایک شوق میں غلیل سے نشانہ لگانا بھی تھا۔ ایم روز میں چھت پر تھا اور کوے کی تاک میں۔ یہ کوا بہت تنگ کرتا تھا۔ پتہ نہیں اسے پتنگ سے کیا بیر تھا یا میری پتنگ بازی اسے پسند نہ تھی۔ جب پتنگ اڑانے لگتا یہ کہیں سے نمودار ہوجاتا۔ ایک روز میں نےطاسے سبق سکھانے کی کوشش کی۔ کوا بڑا چالاک پرندہ ہے مشکل ہی سے پکڑ میں آتا ہے۔جب بھی میں نشانہ لینے لگتا ، غائب ہوجاتا۔ کوا تو پھر نشانہ نہ بن سکا لیکن ایک اچھا شعر ضرور دے گیا۔ شاعری کی ابتدا جب ہوئی تو یہی تجربات شعر کے قالب میں ڈھل گئے:

اف وہ جلوہ کہ ترستی ہی رہے آنکھ جسے

ہائے وہ خواب جو شرمندہء تعبیر نہ ہو

11-” گدھے کی دولتی اور ما بدولت”
محلے کے لڑکے گدھوں کی سواری کے بہت شوقین تھے۔ جہاں کہیں کوئی آوارہ گدھا نظر آیا ، گھیر گھار کر پکڑا اور سوار ہولیے۔ ایک روز ہماری گلی میں شور پکار کی آواز سے میں باہر کی طرف دوڑا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ چند لڑکے ایک گدھے کو گھیرے پکڑنے کی کوشش میں تھے۔ سب سامنے ہی کی طرف تھے ۔۔ میری عقل میں ایک ترکیب آئی اور فورا” ہی میں اس پر عمل کرنے کو تیار ہوگیا۔ گدھے کے پیچھے جاکر یہ سوچ کر اس کی دم میں لٹک گیا کہ اب بچُو تم کہاں جاؤ گے۔ دم پکڑ کر لٹکا ہی تھا کہ گدھے نے ایک زور دار دولتی جھاڑی۔ میں اچھل کر دور جاکر گرا۔ ہوش آیا تو ہسپتال میں آج بھی یہ واقعہ یاد آتا ہے تو فیصلہ نہیں کرپاتا کہ بڑا گدھا کون تھا۔۔(جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International