تازہ ترین / Latest
  Monday, October 21st 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

بند گلی اور موت کے ساے

Articles , Snippets , / Friday, May 3rd, 2024

کبھی رات کے پچھلے پہر جب سارا عالم گھپ اندھیرے سے پناہ لیتا ہوا اپنے اپنے بستروں میں دبکا ہوا ہوتا ہے مایں اپنےبچوں کو بھوت پریت اور پچھل پیریوں کے آسیب سے بچانے کے لیے ان پہ آیت الکرسی اور چاروں ول کا دم پڑھ کے بستر میں سلانے کے لیے اتارتی ہیں. اسی بستر میں لیٹے لیٹے رات کے پچھلے پہر کبھی آپ نے محسوس کیا ہے کہ آپ کی چلتی ہوی سانسیں یکدم رک گءی ہوں جیسے کسے نے آپ کی چھاتی پہ کءی من وزن لاد دیا ہو آپ دمے کے مریض کی طرح کھینچ کھینچ کے سانس لیتے ہوئے آکسیجن کو پھیپھڑوں تک لیجانے اور کاربن ڈای آکسائیڈ کو پھیپھڑوں سے باہر نکالنے کی سعی ناکام کرتے ہوئے آدھ مو ے ہوتے پھریں مگر دمے کے مریض جیسی بے بسی کے ساتھ ایک بھی سانس ڈھنگ کی نہ لے پایں ہے نہ بے بسی سے بڑھ کے بے .بسجث
سانسوں کی آنی بسیجانی ہی تو زندگی کی روانی کا حسن ہے جونہی سانسوں کی اتھم پتھم تھم جاتی ہے زندگی ختم ہو جاتی ہے. ماں پچھلے تین سالوں سے بستر پہ تھی کھانا پینا دوا داروو سب ہم کرتے تھے نہلانا دھلانا بالوں میں کنگھی کرنا پیمپر لگانا صفائی ستھرای کا خیال رکھنا میری ذمہ داری تھی ماں جی کو زندگی سے بہت پیار تھا وہ ایک لمبی زندگی جی چکی تھیں اور ابھی مزید لمبی زندگی جینا چاہتی تھیں ان کے خوابوں کی صندوقچی بہت بڑی تھی جس میں ست رنگے خواب تہہ در تہہ بڑے سلیقے سے سجے ہوے تھے جیسے وہ گھر کی ہر شے کو ایک سلیقے اور قرینے سے رکھتی تھیں ان کا سجا سجایا صاف ستھرا گھر مجھے کسی شو روم کی مانند دکھتا اور مجھے شیشے کے اس شیش محل میں چلنے سے بھی ڈر لگتا تھا کہ کہیں میرے جوتوں کے نشانات سے ماں جی کا شیش محل گندا نہ ہو جاے خیر تین سال بے بسی اور معذوری کی زندگی گزار کے ماں جی کی آخری سانسیں کی وداعی میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی اور ان آخری سانسوں کے بعد ماں جی نے اس ظالم سماج کو ہمیشہ کے لیے تیاگ دیا تھا وہ پورے تین سال تک زندگی کی بند گلی سے ٹکراتی رہی تھیں اور اس بند گلی سے نجات پانے کے لیے ان کی نس نس کو زخمی ہونا پڑا تھا. اتنا آسان تھوڑی ہے زندگی کی بند گلی سے نجات پالینا. یہ بند گلی ہم سب کا انتظار کر رہی ہے اب یہ ہماری یا آپ کی قسمت پہ منحصر ہے کہ کون اس بندگلی سے جلد رہای پا جاتا ہے اور کون بعد میں. موت ہمیشہ ہی زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے. اور اس تعاقب تک پہنچنے کے لیے اللہ پاک نے بڑھاپے کے ساتھ ساتھ متعدد سینکڑوں بیماریاں بھی انسان پہ مسلط کر چھوڑی ہیں اور انسان انھی بیماریوں کی دلدل سے بچتا بچاتا بالآخر اپنی موت، اپنی زندگی کی آخری تنگ گلی میں پہنچ ہی جاتا ہے. جہاں تقدیر کے مطابق اسے اچھی یا خوفناک موت کے حوالے ہونا ہی پڑتا ہے. اس بند گلی سے سب کو بہت خوف آتا ہے کیونکہ وہ بندگلی قبر سے پہلے کی منزل ہے اور ہمیں قبر میں جانے سے بھی بہت خوف آتا ہے تو اس کا سب سے بہترین حل یہ ہے کہ اپنے مذہب کے ستونوں کو مضبوطی سے تھام لیں تاکہ اگر کبھی زندگی میں شام پڑ بھی جاے زندگی اگر کبھی تنگ گلی میں لے بھی جاے تو ہمارے مذہب کی چمک دمک اور روشنی ہمیں اس بند
گلی کے عذاب اور بعد میں قبر کے عذاب سے بچا سکے.
ہر ذی نفس کو اس بند گلی کا حالت ہوش. میں سامنا کرنے کی تیاری بھی اوایل عمر میں
ہوش و حواس سے ہی کرنی چاہیے.
بند گلی اور موت کے ساے
بند گلی موت کے ساے سی تھی
سچ کسی اپنے پراے سی تھی
سانسوں کے ساتھ سانس لیتی تھی
بند گلی میرے ماں جاے سی تھی
کہاں تھا ٹھکانہ رہتی دنیا تک
دنیا تو اک سراے سی تھی
دعائیں
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International