وہ چلتے چلتے چونک پڑا- زمین کے چپے چپے سے رونے کی صدائیں پھوٹ رہی تھیں- وہ بوکھلا سا گیا اور پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر دوڑنا شروع کردیا لیکن اس کا ذہن اس رمز کی طرف پہنچنے سے قاصر رہا- تب وہ ایک ٹیلے پر کھڑا ہوگیا اور بڑے ہی گھمبیر لہجے میں کہنا شروع کردیا- ” اے دھرتی آخر تجھ پر کیا افتاد پڑی ہے؟ تو کیوں خون کے آنسو رو رہی ہے؟” اور پھر جیسے ایک معجزہ رونما ہوا- زمین سسک سسک کر زبان حال سے کہنے لگی” میں اپنے کاندھے کے بارگراں سے گری جارہی ہوں- یہ تکلیف اب میرے لئے ناقابل برداشت ہے” یہ کہہ کر زمین پھر خراش سسکیاں بکھرنے لگیں-
اب اس کا دماغ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا- اس کے چہرے پر غم و غصے کی لہر دوڑ گئی- حد نظر تک پہاڑوں کے لامتناہی سلسلے کہرے کی چادر میں لپٹے کھڑے تھے- وہ بےتحاشہ اس جانب بھاگتا گیا تقریباً نصف گھنٹے کے بعد وہ دامن کوہ میں کسی بونے کی طرح کھڑا تھا- اس نے آسمان سے باتیں کرتے ہوۓ پربتوں کی جانب انگلی اٹھائی اور چیخ کر کہا “سنو! اے پربتو تم سب دھرتی کے بوجھ ہو- تم سب اتنے بےحس ہو کہ کسی کی تکلیف کا ذرہ برابر بھی احساس نہیں”- پربتوں کے دیو نے تو پہلے حیرت سے اپنی پلکیں جھپکائیں پھر بیک وقت ایک زبان ہوکر کہنے لگے- “اے انسان خدا کی قسم! ہم سب دھرتی کے بوجھ نہیں- ہم تو دھرتی کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ ہیں”- کیا تمہارا جغرافیہ اتنا کمزور ہے؟ کیا تم نہیں جانتے کہ اگر ہم نہ ہوتے تو آۓ دن کے یہ زلزلے زمین کو گیند کی طرح ٹھوکروں پر رکھ لیتے- ہم بارش کے موجب ہیں، ہم ملک کی سرحدوں کے پاسبان ہیں- اتنا کہہ کر پہاڑوں کے سلسلے دم لینے کے لئے رک گئے اب وہ کچھ اور بولنے کے لئے منہ کھولنے ہی والے تھے کہ وہ بھاگ کھڑا ہوا- کیوں کہ پہاڑ اسے اپنی لاجواب دلیلوں سے قائل کرچکے تھے- وہ بھاگتا رہا ۔۔۔۔۔۔۔ _
آگے اور آگے کچھ ہی دیر وہ سمندر کے ساحل پر کھڑا تھا- دیو پیکر موجیں سمندر کے سینے پر اچھل کود رہی تھیں- اس نے ٹھاٹیں مارتے ہوۓ سمندر سے چیخ کر کہا” بحر ذخار کی موجوں! آخر تم کب تک دھرتی کے سینے پر مونگ دلتی رہو گی؟ تم سب احساسات کے جذبے سے عاری ہو، تم سب آکر کب تک دھرتی کا بوجھ بنی رہو گی؟ اتنی کڑوی لسیلی باتیں سن کر سنجیدہ لہروں کی پیشانی پر شکنیں ابھر آئیں- چنگھاڑتا ہوا سمندر کسی فلسفی کی طرح سنجیدہ ہوگیا اور بڑے ہی گھمبیر لہجے میں کہا” اے انسان! اللہ کی قسم ہم دھرتی کے بوجھ نہیں- اے آدم زاد ہمیں تمہاری ناقص معلومات پر حیرت ہے- کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہماری وجہ سے زمین کا شباب قائم و دائم ہے- ہمارا پانی کالی گھٹاؤں کا روپ دھارن کرکے زمین کی تشنہ لبی کو دور کرتا ہے- ہماری بانہیں جہاز رانی کے لئے کھلی ہوئی ہیں- تم ہماری آغوش سے ہیرے، موتی مونگے اور بیش قیمتی پتھر حاصل کرتے ہو- تم ہمارا دیا ہوا نمک کھاتے ہو اور ہم ہی سے نمک حرامی کی باتیں کرتے ہو- وہ شرم سے اب آب ہوگیا- گھمبیر سمندر اور نہ جانے کیا کیا کہتا رہا کہ وہ وہاں سے سرپٹ بھاگ کھڑا ہوا- بھاگتا ہی رہا اپنی ناک کی سیدھ _
اچانک ایک جگہ اسے ٹھوکر لگی- دیکھا تو ایک وسیع و عریض صحرا کے ریگزاروں پر اوندھے منہ پڑا ہوا ہے- وہ ہانپتے ہانپتے اٹھ کھڑا ہوا اور صحرائے اعظم کو مخاطب کرتے ہوۓ کہا” اے صحرائے اعظم تم دھرتی کے بوجھ ہو- تمہیں پتہ بھی ہے کہ دھرتی تمہارے غیرضروری بوجھ سے کراہ رہی ہے- صحرائے اعظم نے بڑے ہی گھمبیر لہجے میں جواب دیا” اے انسان! تم ہماری روشن پیشانی پر بےبنیاد الزام کا ایک بےبنیاد داغ لگا رہے ہو- تم ہماری افادیت سے ناواقف ہو، ہمیں حیرت ہے- سنو ہمارے آغوش شفقت میں متعدد صحرائی جانور سانس لے رہے ہیں- ہمارے ہی وجہ سے کتنے مقامات مناسب سردی اور گرمی پاتے ہیں- ہماری ریت تم انسانوں کو فائدہ پہنچاتی ہے- تمہارے رواں دواں پر ہمارے احسانات ہیں- ہمیں تمہاری احسان فراموشی پر تعجب ہے- مارے شرم کے اس کا جسم پسینے سے شرابور ہوگیا اور پھر وہ پیچھے مڑ کر سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا- جب وہ اپنے خیالوں سے چونکا تو اپنے سامنے سائیں سائیں کرتا ہوا گھنیرا جنگل پایا- جنگل کی بائیں جانب سربفلک عمارتوں کا لامتناہی سلسلہ پھیلا ہوا تھا- صرصر کا شور آسمان کو سر پر اثھاۓ تھا- وہ کھلے ہوۓ میدان کے سط میں کھڑا ہوگیا اور چیخ چیخ کر کہنا شروع کیا” اے بھیانک جنگل کے تناور درختوں! اے ہوا کے آوارہ جھونکوں ، اے آسمان سے باتیں کرتی ہوئی سربفلک عمارتوں ، ہو نہ ہو تم سب دھرتی کے بوجھ ہو! – تم سب دھرتی کے سینے کو اپنے وزنی پیروں سے روند رہے ہو- یک بیک دھرتی سے نیلے گگن تک سکوت کی دبیز چادر تن گئی- ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے کائنات کی قوت گویائی یک بیک سلب ہوچکی ہو- سب سے پہلے ہواؤں نے خاموشی کے طلسم کو توڑا ” رب دو جہاں کی قسم ہم دھرتی کے بوجھ نہیں- ہم سے تو ساری کائنات کی ذی روح مخلوقات سانسوں کے خزانے پاتی ہیں”
پھر جنگل گویا ہوا خالق کائنات کی قسم! ہم دھرتی کے بوجھ نہیں- ہماری چھاؤں سے تپتے ہوۓ مسافر راحت پاتے ہیں- ہم دنیا کو بیش قیمتی لکڑیاں اور گونا گوں حامل کی جڑی بوٹیاں فراہم کرتے ہیں- ہماری گود بیش بہا خزانوں کا مدفن ہے- ایک طرف سے سربفلک عمارتیں کہنے لگیں- رب کائنات کی قسم! ہم دھرتی کے بوجھ نہیں ہماری آغوش شفقت میں تمہاری طرح دنیا کے تمام انسان اپنا سر چھپاتے ہیں- ہم محسن انسان ہیں، ہم رونقِ شہر ہیں- پھر باری باری سبھوں نے ٹیپ ریکارڈ کی طرح چیخنا شروع کیا- “اے اولادِ آدم ہم دھرتی کے بوجھ نہیں ۔۔۔۔۔۔ ہم دھرتی کے بوجھ نہیں، پورب پچھم، اتر دکھن چاروں کھونٹ سے یہ صدائیں مسلسل پھوٹ رہی تھیں- وہ وہاں سے آندھی طوفان کی طرح بھاگا- بھاگتا ہی رہا ۔۔۔۔۔۔ بھاگتا ہی رہا اور اس جگہ آپہنچا جہاں پہلی بار دھرتی کے رونے کی آواز سنی تھی-
وہ ایک بار پھر مچل اٹھا دھرتی اب بھی کراہ رہی تھی- سسک رہی تھی- اس کی آہ و بکا میں جیسے کائنات کا سارا درد سمٹ آیا ہو- وہ ہانپتے ہانپتے روہانسی آواز میں دھرتی سے مخاطب ہوا- “اے دھرتی! خدا کے لئے چپ ہوجاؤ میں تھک ہار کر تمہارے پاس آگیا ہوں- میں اپنی تلاش میں بالکل ناکام رہا ہوں- خدا کے لئے مجھے بتاؤ کہ تمہارے سینے کا بوجھ کون ہے؟ اور کہاں ہے؟ ورنہ خداۓ عزوجل کی قسم! میرے دماغ کی ساری رگیں پھٹ جائیں گی- دھرتی نے سسکتے ہوۓ کہا “اگر تم جاننے کے لئے اتنا ہی بےچین ہو کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے؟ تو سنو! تم اپنی ناک کے سیدھے چلے جاؤ تقریبآ نصف میل کی دوری پر تمہیں جھیل ملے گی- جھیل کے کنارے پانی میں ڈوبی ہوئی ایک چٹان ملے گی- تم اس پر بےڈھرک چڑھ جانا اور اپنے دائیں بائیں، آگے پیچھے، اوپر نیچے نہارنا- وہاں کہیں نہ کہیں تمہیں تمہارے سوال کا جواب مل جاۓ گا- یہ کہہ کر دھرتی پھر سسکنے لگی- وہ اپنی ناک کی سیدھ اوندھا منہ بھاگ کھڑا ہوا جیسے کوئی عفریت اس کا پیچھا کر رہا ہو- اس کے ہاتھ سے صبر کا دامن چھوٹ چکا تھا- وہ جلد سے جلد اس بےحس اور بے غیرت شۓ کو دیکھنا چاہتا تھا جو دھرتی کے سینے پر غیرضروری بوجھ بن کر لدی ہوئی ہے اور جو دھرتی کو کسی کروٹ چین لینے نہیں دیتی-
آن کی آن میں وہ جھیل کے کنارے پہونچ چکا تھا لیکن وہ وہاں تنہا نہیں تھا- جھیل سے کچھ پرے درختوں کے پھیلے ہوۓ سلسلوں کے نیچے انسانوں کے نہ جانے کتنے قافلے رکے ہوۓ تھے- شاید وہ لوک پکنک منانے کی غرض سے وہاں آۓ ہوۓ تھے- جھیل می توبہ شکن لڑکیاں تیراکی کے لباس میں آنکھوں کو دعوتِ گناہ دے رہی تھیں- وہ بھی اس گناہ بےلذت میں کھوگیا اور کچھ دیر کے لئے اپنا مشن بھول گیا- تقریبآ نصف گھنٹے تک وہ ان فتنہ پرور نظاروں سے اپنی آنکھیں سینکتا رہا- پھر اچانک وہ چونک پڑا- غالباً اسے یہاں آنے کا مقصد یاد آگیا تھا-
وہ جھیل کے کنارے پانی میں نصف ڈوبی ہوئی چٹان پر چڑھ گیا اور حسب ہدایت اس نے سب سے پہلے اپنے دائیں بائیں دیکھا لیکن وہاں تو کچھ نہ تھا- پھر آگے پیچھے دیکھا لیکن ہزار کوششوں کے باوجود وہاں بھی اسے کچھ نظر نہیں آیا- پھر اس نے اوپر دیکھا تو نیلگوں آسمان کے سوا دور تک خلاء میں کچھ نہیں تھا- اب صرف ایک مرحلہ باقی رہ گیا تھا- نیچے کا مرحلہ- اس کا دل وفور جذبات سے اس تیزی سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی دھمک دونوں کانوں کو صاف سنائی دے رہی تھی اور پھر جب وہ اپنے دھڑکتے ہوۓ سینے پر ہاتھ رکھ کر اپنی نگاہ آہستہ آہستہ نیچے کی جانب لے گیا تو یک بیک اس کی آنکھوں کے نیچے اندھیرا چھا گیا- دونوں کانوں کے پردے سن سے ہوکر رہ گئے- جھیل کے آئینہ آب میں اسے اپنا خود کا مکروہ چہرہ صاف نظر آرہا تھا-
وہ لاجواب اور غرق غرق ہو رہا تھا- کیونکہ اسے اس کے سوال کا مدلل جواب مل چکا تھا- اس نے وہیں جھیل کے صاف شفاف پانی میں وضو کیا اور بڑے خشوع وخضوع کے ساتھ ہری ہری گھاس پر سجدہ ریز ہوگیا- اپنی گناہ آلود زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے توبہ کی اور آئندہ ایک چہرے والے نیک انسان بن کر زندگی گزارنے کا عہد کیا- پھر اس نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی ڈائری نکالی اور لکھا ۔۔۔۔۔ “بے چہرہ لوگ دھرتی کے بوجھ ہیں ۔۔۔۔۔۔!”
نور اقبال
جگتدل (مغربی بنگال)
موبائل نمبر: 9239768229
Leave a Reply