rki.news
ہمارے بی ایس سی(فائنل) کے امتحان بھی چل رہے تھے اور گھر میں بڑی آپا کی شادی کا ہنگام بھی۔ گھر کی پہلی شادی تھی۔ رشتہ خاندان ہی میں طے ہوا تھا، دولہا والے ہندوستان سے ہجرت کرکے لاہور میں رچ بس گئے تھے۔ یہ ایک اچھی بات تھی۔ جہاں رہیں وہاں کا رہن سہن، بولی ٹھولی کو اپنالینا چاہیے۔ اچھی بری باتیں ہر قوم اور سماج میں ہوتی ہیں یہ خود پر منحصر ہے کیا انتخاب کریں اور کیا ترک کردیں۔ بارات لاہور سے آنا تھی۔ رہنے ٹھہرنے کے جملہ
انتظامات کے علاوہ رات رات بھر گھر میں ڈھول کی تھاپ پر شادی کے گیت گائے جاتے۔ بڑی آپا کی سہیلیاں تو جلدی اپنے گھر چلی جاتیں البتہ بہت سی رشتے کی بہنیں، آس پڑوس کی بچیاں، دوسرے شہروں سے خاص خاص رشتہ داروں کی بدولت جشن کا سا سماں تھا۔ وقفے وقفے سے رات بھر گلگلے تلے جاتے اور چائے کا دور چلتا رہتا۔ ہم بھی پڑھتے پڑھتے کمرے سے نکل کر اس ہجوم میں شامل ہوجاتے اور کبھی دوچار گلگلے اور چائے لے کر واپس کمرے میں۔
برابر والا مکان خالی تھا۔ مالک مکان سے اچھے مراسم تھے انہوں نے چند روز کے لیے چابی ہمارے حوالے کردی تھی۔ برات کے ٹھہرنے کا انتظام بھی وہیں کیا تھا۔
شاعر ہو یا اور کوئی فنکار، اس کی ہر تخلیق کا پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ ہمارے صحن کی بیرونی دیوار کے ساتھ ایک کھجور کا درخت تھا۔ آدھے سے زیادہ اس کی گھنی ٹہنیاں آنگن میں سایہ کیے ہوئے تھیں۔ نیم اور پیپل کے برعکس کھجور کے درخت کا سایہ چھدرا چھدرا ہوتا ہے۔ مجھے دھوپ چھاؤں کا یہ منظر بہت دلکش لگتا تھا لیکن آپا کی شادی کے اس ہنگام میں ایک دن اس درخت نے نجانے کیوں مجھے بہت اداس کردیا۔ اس پس منظر میں جو شعر ہوا پیشِ خدمت ہے:
آنگن میں اگ رہی تھی نئے موسموں کی دھوپ
یادوں کا سایہ دار شجر داغ دار تھا۔
(فی ن خ )
مہندی والی رات گھر میں بہت رونق تھی۔ آنگن میں روشنیوں کا سیلاب امڈ آیا تھا۔ دیگر مردوں کی طرح ہمارا داخلہ بھی منع تھا۔ ایک بات بتاتے چلیں باہر کے دروازے کے اندر کی جانب لکڑی کا ایک بڑا سا پارٹیشن رکھا ہوتا تھا جسے “اوٹ” کہتے۔ اگر کھبی مالی یا اور کوئی مرد ملازم کو کچھ کہنا ہوتا تو وہ دروازے سے داخل ہوکر اس اوٹ کے پیچھے سے مدعا بیان کرتا۔ مہندی والی رات ہمیں کسی کام سے اندر آنا تھا۔ اوٹ کے پیچھے سے ہم نے چھوٹی بہن کو یا کسی اور کو بلانا چاہا لیکن گلا پھاڑنے کے باوجود اس شور پکار میں کسی نے نہیں سنا۔
دروازے کی اس اوٹ سے آنگن کا کچھ حصہ نظر آرہا تھا۔ فرش پر بہت سے سائے گڈ مڈ ہورہے تھے۔ ہم نے چاہا کہ ان سایوں کی مدد سے کسی کو پہچان کر آواز دیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا سب ہی سائے ایک جیسے ہی لگ رہے تھے۔ چلتے پھرتے، ایک دوسرے میں ضم ہوتے پھر الگ ہوجاتے۔ لیکن اس پس منظر نے ایک نظم ہمیں عطا کردی۔
بہت عرصے بعد جب یہ نظم کسی جگہ شائع ہوئی اور ایک رشتہ دار خاتون کی نظر سے گزری تو بہت ناراض ہوئیں اس بات پر کہ میں نے ان کی بیٹی کا نام کیوں شامل کیا ہے۔
انہیں ثبوتوں کے ساتھ سمجھانا پڑا کہ اس نظم میں جو نام ہیں وہ مشہور لوک داستانوں کے کردار ہیں۔ میں نے آپ کی بیٹی کا نام نہیں شامل کیا بلکہ آپ نے ایک مشہور لوک داستان کی ہیروئن کے نام پر اپنی بیٹی کا نام رکھا ہے۔
پتہ نہیں وہ مطمئن ہوئیں یا نہیں آپ مہندی کی رات والے پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے نظم ملاحظہ کیجیے:
جتنی پر چھائیاں نظر آئیں”
کس کے لہجے میں رس کی شیرینی
کس کی باتوں میں گل کی رنگینی
نام جپتا ہے کس کا دیوانہ
جان دیتا ہے کس پہ پروانہ
ماہ و انجم میں کس کی رعنائی
دونوں عالم ہیں کس کے شیدائی
کونسی ہے یہاں پہ رخسانہ
کون شیریں ہے کون ریحانہ
گل پیاری ہے کون بیلا ہے
کون سیتا ہے کون لیلا ہے
ماروی کہہ کے دیں کسے آواز
نام کس کا یہاں پہ لیں شہناز
کیسے عذرا کو آج پہچانیں
کس کو سلمیٰ کے نام سے جانیں
قیں کس کے فراق کی تصویر
کون رانجھا کے خواب کی تعبیر
عقل عاجز ہے کیسے پہچانے
ایک ہی خال و خد کے افسانے
ایک ہی لب کی ہے یہاں خوشبو
ایک ہی زلف کا ہے یہ جادو
جتنی پر چھائیاں نظر آئیں!
ایک ہی جسم کی خبر لائیں!!
(فیروز ناطق خسروؔ) جاری ہے
Leave a Reply