Today ePaper
Rahbar e Kisan International

“بڑے بھیا کی لاڈلی”

Literature - جہانِ ادب , / Friday, March 21st, 2025

بڑے بھیا نے ابھی میٹرک پاس نہیں کیا تھا۔ لیکن ان کے شوق بڑوں جیسے تھے۔ کتابیں، رسالے، فوٹوگرافی وغیرہ۔ ابا کو بھی ان کے یہ شوق اچھے لگتے تھے اور وہ ہمت افزائی کرتے رہتے تھے۔ بیٹھک میں ایک کیل پر چمڑے کے کیس میں کیمرہ ٹنگا رہتا تھا جو ابا نے ان کی سالگرہ پر لاکر دیا تھا۔ ایک دن بھیا کو کیمرے کی ضرورت پڑی، کیس میں کمرہ ندارد۔ بھیا کو بہت دھچکا پہنچا۔ بیٹھک میں زیادہ تر انہی کے دوست اٹھتے بیٹھتے تھے۔کبھی کوئی کام کاج والا آجاتا تو تھوڑی دیر کے لیے وہاں انتظار کرلیتا۔ ہم بھائی بہنوں ہی سے میں پوچھ گچھ کی۔ دوستوں کو شرمندہ کرنا مناسب نہ سمجھا۔ بھیا نے اس کے بعد کیمرہ نہیں خریدا۔ طالب علمی کے دور میں یہ عیاشی ممکن نہیں تھی ڈر کے مارے ابا سے بھی نئے کیمرے کی فرمائش نہ کرسکے البتہ غم غلط کرنا بھی ضروری تھا۔ ایک دن کیا دیکھتے ہیں بھیا کتے کا ایک پِلّا لے آئے۔ بچہ کسی کا بھی ہو اچھا لگتا ہی ہے۔ مثل ہے بچہ تو گدھی کا بھی خوبصورت ہوتا ہے۔ وہ تو بہت کیوٹ، گہرےکالے رنگ کا۔ اتنی کم عمری میں بھی خوشامدانہ انداز میں ہر اک پیروں میں لوٹنے کے فن سے آگاہ۔ ہم سب بین بھایوں کے ہاتھ ایک کھلونا آگیا۔ ابا اماں البتہ نالاں۔ پاکی، ناپاکی کا خیال۔ گھر کے بیرونی دروازے سے آگے کی حدود اس کے لیے شجرِ ممنوعہ۔
بڑے بھیا البتہ اسے بڑی پابندی سے ہفتے کے ہفتے نہلاتے۔ شام کو باہر ٹہلانے بھی لے جاتے۔ کچھ ہی عرصہ میں اس پلے نے ہاتھ پاؤں نکالنے شروع کردیے۔ ایک دن حیرت ناک انکشاف ہوا کہ پلے “صاحب” نہیں موصوف پلے “صاحبہ” ہیں۔ اماں کو یہ راز آشکار ہونا قطعی پسند نہیں آیا۔ کئی طرح کے اندیشے ان کی آنکھوں میں سرسرانے لگے۔ ہم بہن بھائی ان باتوں سے بے نیاز۔ بھیا کا اس کے ساتھ لاڈ پیار اور بڑھ گیا تھا۔ سال نہ ہونے پایا کہ وہ پلے سے اب کتیا کہلانے لگیں۔ بھیا البتہ اسے “لیوسی” کہہ کر پکارتے تھے۔ شاید انہوں نے اپنی انگریزی کی کتاب میں “William Wordsworth” کی نظم “Lucy Gray” سے یہ نام لیا ہو۔

ایک دن “لوسی” باہر نکل گئی۔ شام تک واپس نہ آئی۔ پہلے کبھی باہر جاتی تو کچھ دیر بعد پنجوں سے دروازہ کھرچنے کی آواز سے معلوم ہوجاتا کہ موصوفہ ہوا خوری کے بعد واپس آچکی ہیں لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔ بھیا بار بار باہر ڈھونڈنے جاتے اور منہ لٹکائے ناکام واپس آجاتے۔ لوسی کو نہ آنا تھا نہ وہ آئی۔ چند ماہ اور گزر گئے۔ بھیا کو بھی آہستہ آہستہ صبر آہی آگیا۔ ایک روز دروازہ کھرچنے کی تیز تیز آوازیں آئیں۔ بھیا بھی گھر پر تھے۔ ساتھ ہی لوسی کے بھونکنے کی۔ ہم سب دروازے کی طرف دوڑے۔ بھیا ہم سے آگے۔ لوسی اندر آتے ہی بھیا کے پیروں کو اپنی تھوتنی سے چاٹنے لگی۔ بھیا بھی اسے دیکھ کر جذباتی ہو رہے تھے۔ اتنے میں اماں بھی آگئیں۔ لوسی کو ایک نظر دیکھتے ہی بہت کچھ سمجھ گئیں۔ ایک دم بڑے غصے سے بھیا کو مخاطب کرکے کہنے لگیں، باہر نکالو اس آوارہ کو، گھر میں اب مزید کسی پلے یا پلوں کی گنجائش نہیں۔ ہم حیرت سے اماں کو تکتے رہے، نجانے کیوں اتنا غصہ ہورہی ہیں۔۔ بھیا نے خاموشی سے دروازہ کھولا، لوسی ان کے ہیچھے پیچے گھر سے باہر نکل گئی کچھ دیر بعد بھیا اکیلے گھر آگئے۔ لوسی اب دروازے کے باہر بیٹھی رہنے لگی۔ ایک روز پتہ چلا سڑک پر گزرنے والی کسی بیل گاڑی کے نیچے آکر کچلی گئی۔ “حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بِن کِھلے مرجھاگئے”۔۔(جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International