Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بھوک

Literature - جہانِ ادب , / Tuesday, January 28th, 2025

تمثیلہ لطیف

وہ اسے اپنے ذاتی کمرے میں لے آئ تھی۔اسے بٹھا کر وہ اس کے لیے چائے بنانے چلی گئ تو اکیلا انتظار کی آگ میں جلنا اسے کھولنے لگا۔بے چینی اس کے انگ انگ سے ظاہر ہو رہی تھی ۔وہ اضطراب کی کیفیت سے دوچار جینز کی جیبوں میں ہاتھ ڈال کر اٹھ کھڑا ہوا۔کمرے کی دیواروں پر مختلف تصاویر آراستہ تھیں۔ایک نظر انہیں قریب سے دیکھنے کی خواہش اسے ان تصاویر کے پاس لے آئ۔ایک تصویر کو دیکھ کر جو پہلا خیال اس کے ذہن میں آیا وہ تھا”کتنی واہیات تصویر ہے۔”پھر اچانک جیسے بجلی کوندتی ہے اس کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔نگاہوں کے سامنے سے حجاب اٹھ گئے ۔تخیل نے جست لگائ اور وہ آن کی آن میں صدیوں کا سفر پل بھر میں طے کرتا ہوا اپنے وقت کی عظیم تہذیبی سلطنت کی وادی میں جا پہنچا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ سچ کہتا تھا۔اس کا چہرہ جھریوں سے بھرا تھا ۔سچ کہنے کی پاداش میں اسے پابند _ سلاسل کر دیا گیا۔وہ غیروں کے ساتھ ساتھ اپنوں کی بے اعتنائ کا بھی شکار ہوا لیکن اس کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئ۔خاندان میں اس کی بیٹی اس کی ہمنوا تھی۔سادگی اور حسن کی فزوں خیزی کا آمیزہ۔وہ اپنے ایک سال کے بیٹے کے ساتھ خوشحال زندگی بسر کر رہی تھی کہ اس کے بوڑھے باپ کی طویل آزمائش کا دور شروع ہوا۔
شہنشاہ کے حواریوں نے اس کے کان بھرے کہ بوڑھا اس کی سلطنت کے لیے خطرہ ہے۔لوگ اس کے پاس جمع ہوتے جارہے ہیں۔وہ ایک بے فیض لمحہ تھا۔شہنشاہ ان کی باتوں میں آگیا۔قدرت نے بوڑھے کے حوصلوں کو سان پر چڑھانا تھا۔چنانچہ پا بہ جولا ں بوڑھے کے لیے تا دم _مرگ بھوکا رہنے کی سزا تجویز کی گئ۔ظلم و ستم کا دور شروع ہوا۔بوڑھا عالی حوصلہ تھا۔برداشت کرتا رہا لیکن یہ چند دنوں کی بات نہیں تھی۔ظلم کی رات طویل۔ہوتی گئ۔سپیدہ سحر نمودار ہونے کی کوئ نوید نہ سنائ دی تو کمزوری بڑھتی گئ۔پھر دوسرا حکم ملا کہ اب بوڑھے سے کسی کو ملنے کی اجازت نہیں ہو گی۔یہ حکم اس کے چاہنے والوں کے لیے ایک تازیانہ تھا۔ملنے کی کوئ صورت نہ تھی۔اکلوتی بیٹی باپ سے بے انتہا محبت کرتی تھی۔وقت پر لگا کر اڑ رہا تھا۔باپ اور بیٹی کے لیے ایک ایک گھڑی ایک ایک صدی کی طرح لگ رہی تھی۔آخر ایک دن بیٹی کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا تو بیٹی نے باپ سے ملنے کی اجازت مانگی۔شہنشاہ اس کے فسوں خیز حسن سے مرعوب ہوا تو اجازت دےدی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ اور بیٹی کی ملاقات کا منظر بہت دردناک تھا۔بیٹی نے دیکھا کہ اس کا محبوب باپ بھوک سے بے حال ہو رہا تھا۔کھانے پینے کی کوئ چیز پاس نہیں تھی۔خزاں رسیدہ جسم سے موت آہستہ آہستہ زندگی کو کشید کر رہی تھی۔وہ سر تا پا کانپ گئ۔تھوڑی دیر باپ کے پاس بیٹھ کر وہ واپس پلٹ آئ۔
کچھ دن یوں ہی گزر گئے۔ایک دن وہ تھک گئ۔اس نے پہرہ داروں کی طرف نظر بھر کر دیکھا۔اس کے اشارہ ابرو کی تاب نہ لا کر وہ موت کی کوٹھڑی سے تھوڑا دور چلے گئے تو بیٹی قریب المرگ باپ کے قریب ہوئ۔چشم _فلک نے ایک عجیب و غریب نظارہ دیکھا۔حسن کے مجسمے نے قمیص کا پلو اٹھایا تو قبر جیسی اندھیری کوٹھڑی میں جیسے چاند دمکنے لگا۔سفید دودھیا پستانوں سے دودھ چھلک رہا تھا۔اس نے نگاہوں کو جھکا لیا۔اور بند ہوتی آنکھوں والے بوڑھے باپ کے پیاسے ہونٹوں سے لگا لیا۔
۔۔۔۔۔۔۔
“چائے پی لیجیے۔”
کھنکتی آواز اسے ماضی سے حال کی طرف لے آئ۔وہ کہہ رہی تھی۔”پیرو”باپ پرست بیٹی تھی۔باپ کے لیے اس نے وہ کیا جو کوئ بیٹی نہیں کر سکتی۔”
“ہاں بھوک سے جاں بہ لب باپ کو اپنا دودھ پلانا ۔پہلی نظر میں مجھے یہ تصویر بہت واہیات لگی۔پھر مجھے یاد آیا کہ یہ تو پیرو اور سائمن ہیں ۔یہ ہسپانوی مصور بارٹولوم موریلو کی تخلیق رومن چیریٹی ہے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International