رپورٹ : نہال اختر
اردو انجمن برلن کے بانی و صدر جناب عارف نقوی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اردو انجمن برلن نے ایک شاندار پروگرام منعقد کیا۔ اردو انجمن برلن کا یہ تعزیتی پروگرام اُس ہی علاقے کے کمیونٹی سینٹر کے ایک خوبصورت سے ہال میں کیا گیا تھا جس علاقے میں نقوی صاحب کی رہائش تھی۔
اردو انجمن برلن کی جانب سے سولہ نومبر دوہزار چوبیس کو عارف نقوی نے اپنی تنظیم کے اراکین کے ساتھ مل کر ایک موسیقی، کتب کے اجراء اور مشاعرے کے لیے پروگرام کا ارادہ کیا تھا لیکن اُن کی اچانک وفات کے بعد اس پروگرام کو اردو انجمن اور عارف نقوی کے اہل خانہ کی جانب سے تبدیل کرکے “ بیادِ عارف نقوی “کے نام سے منعقد کیا گیا۔ اس پروگرام کو عارف نقوی کے عزیز و اقارب ، احباب، اور اردو انجمن کے تمام اراکین اور مداحوں نے بہت یادگار اور کامیاب بنایا۔
کمیونٹی ہال میں مختلف زبان و ممالک سے تعلق رکھنے والے یعنی جرمن، ہندوستانی، پاکستانی اور دیگر ممالک کے لوگوں کی کثیر تعداد بتا رہی تھی کہ عارف نقوی نے اردو زبان کی تدریس، ادب کی ترویج اور کیرم کے کھیل کے زریعے دو ثقافتوں کو نہایت منظم اور محبت سے جوڑا ہے۔
سہ پہر تین بجے اردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے باضابطہ پروگرام کا آغاز کیا۔ سب سے پہلے کمیونٹی ہال کی چئیر پرسن نے عارف نقوی کو بہت خلوص سے یاد کرتے ہوئے کہا کہ اردو انجمن جو کہ عارف نقوی کے لیے بہت اہم تھی اسی لیے آج اس تنظیم کے اراکین عارف نقوی کے لیے اس بہترین پروگرام کا انعقاد کر رہے ہیں اور انہیں یاد کر رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عارف نقوی کی بنائی گئی اس تنظیم کے سائے تلے یقیناً کئی نسلیں پروان چڑھیں گی۔
پروگرام کے شروع میں اردو انجمن برلن کے نائب صدر انور ظہیر رہبر نے حاضرین محفل سے درخواست کی کہ عارف نقوی کو یاد کرنے کے لیے کھڑے ہوکر دو منٹ خاموشی اختیار کریں اور دل ہی دل میں اُن کی مغفرت کی دعا مانگیں ۔ بعد میں اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ “ آج جہاں عارف نقوی کاپورا خاندان افسردہ ہے وہیں اردو انجمن برلن کے تمام اراکین غم زدہ ہیں۔کیونکہ اس انجمن کے روح رواں عارف نقوی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ انہوں نے عارف نقوی کی زندگی پر بھرپور روشنی ڈالتے ہوئے اردو اور جرمن زبان میں خطاب کیا اور بتایا کہ “ عارف نقوی کو لوگوں کے دلوں پر راج کرنا آتا تھا۔ وہ آج بھی اور آئندہ بھی ہمارے دلوں پر راج کرتے رہیں گے اور اردو ادب کے“ بابائے اردو جرمنی” کے نام سے ہمیشہ جرمنی کی تاریخ میں زندہ رہیں گے۔”
پروگرام کی نظامت عارف نقوی کے صاحبزادی نرگس یوسنتسا نے بہت ہی شاندار طریقے سے جرمن زبان میں ادا کی ۔ اردو انجمن برلن کی جوائنٹ سیکرٹری عشرت معین سیما عارف نقوی کو یاد کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئیں انہوں نے کہا کہ عارف نقوی ہم سب کے لیے اُستاد کی حیثیت رکھتے تھے۔
عارف نقوی کے ساتھ برلن ریڈیو سے منسلک اُن کی ایک جرمن صحافی ساتھی نے اُن کے ساتھ ریڈیو پروگرام کے دوران گذشتہ لمحات کو یاد کیا اور کہاکہ “ عارف ایک سچا فنکار تھا”۔ ایک دوسری ریڈیو کی ساتھی نے عارف نقوی کو ایک بہترین صحافی بتاتے ہوئے اُن کی ایک نظم “ شاہکار” جرمن زبان میں پیش کی جس کا ترجمہ انور ظہیر رہبر نے اردو میں پڑھا ۔ بعد میں اردو انجمن برلن کے نائب صدر کی تیار کردہ ایک فلم زیر عنوان” عارف کی زندگی کے ادوار” مایا ظہیر نے بڑے سے پردے پر دکھائی ۔ جس میں عارف نقوی کے بچپن سے ابتک کی زندگی پر ایک تفصیلی تصاویری رپورٹ تھی اور اس فلم میں عارف نقوی کو اپنی نظم بھی پڑھتے ہوئے دیکھا اور سُنا جاسکتا تھا۔ نرگس نے بزم ادب برلن کے متعمد خاص سرور غزالی کو دعوت اظہار کے لیے بلایا۔ سرور غزالی نے عارف نقوی کوبرلن کی ایک عظیم شخصیت بتاتے ہوئے کہا کہ عارف نقوی اردو ادب کے اُفق پر ہمیشہ چمکتے دمکتے رہیں گے ۔”
نرگس نے بہت سارے مہمان جو اس محفل میں اپنی بیماری کے باعث حاضر نہ ہوسکے کہ پیغامات بھی پڑھ کر سُنائے، جن میں اردو انجمن برلن کے سیکریڑی اووئے فائل باخ ، انجمن کے دیرینہ رفیق و رکن دھیرج رائے اور دیگر ہندوستانی و جرمن اہم شخصیات بھی شامل تھیں ۔ برلن میں ہندی زبان و ادب کی معروف شاعرہ و کہانی کار محترمہ سُوشیلا شرمانے اپنی اور بنگالی زبان کی شاعرہ اور سنگیت کار متالی مکرجی کی عارف نقوی پر لکھی الوداعی نظم پیش کی ۔برلن کی ابھرتی ہوئی معروف شاعرہ اور ناول نگار ڈاکٹر یوجنا جین ساہ نے گزشتہ دنوں عارف نقوی کے ساتھ اپنے سفر کی یاد تازہ اور انھیں منظوم خراج عقدیت پیش کیا۔
فرینکفرٹ سے اردو کے شاعر طاہر مجید صاحب نے عارف نقوی کے نام اپنی شاعری پیش کی جس کو انور ظہیر نے پڑھ کر حاضرین کو سُنائی طاہر مجید صاحب اپنی علالت کی وجہ سے پروگرام میں شرکت نہیں کر سکے تھے لیکن وہ ٹیلیفون پر موجود رہے ۔
اُن کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیے:
جسم رخصت کیااور روح کو گھر لے آئے
کون کہتا ہے کہ ہم تجھُ کو جدا کر آئے
اردو انجمن کے دیرینہ دوست اور رکن جناب ریاض شیخ نے جرمن زبان میں عارف نقوی کی زندگی اور اُن سے دوستی پر سیر حاصل گفتگو کی۔ آخر میں برلن کی تحریک اسلامی سے تعلق رکھنے والی ہر دلعزیز شخصیت جناب محمد عبدالرزاق صاحب کو اظہار خیال کے لیے مدعو کیا گیاعبدالرزاق صاحب نے عارف نقوی کے جنازے و تدفین کا مکمل انتظام کیا تھا۔ انہوں نے عارف نقوی کے ساتھ یاد گار لمحات کو یاد کرتے ہوئے اسلامی انداز میں آخری رسومات پر بھی روشنی ڈالی۔ سارہ ظہیر نے تمام شرکاء اور اظہار خیال کرنے والوں کی خدمت میں پھول پیش کیے ۔ نرگس نے عارف نقوی کی تصویر جس پر عارف نقوی کا یہ شعر لکھا تھا تمام حاضرین محفل کو ایک یادگار کے طور پر پیش کیا۔
رکھ دیے راہوں میں یوں میں نے محبت کے چراغ
مجھ کو اس شان سے دنیا کو سجانا آیا
آخر میں مہمانوں کی چائے و دیگر لوازمات سے تواضع کی گئی۔
Leave a Reply