rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان میں علم کیمیاء کے بانیان میں اگر کسی شخصیت کا نام سنہری حروف سے لکھا جانا چاہیے تو وہ نام بیشک صرف اور صرف ایک ہی نام ہوگا ،اور وہ نام ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے نام کے علاوہ کوئی اور نام نہیں ہو سکتا، لیکن یہ بات بھی قابلِ افسوس ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی خدمات کو اُس طرح سے یاد نہیں رکھا جیسے زندہ قومیں اپنے ہیروز کی خدمات کو یاد رکھا کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل اب اپنے اس عظیم ہیرو کے نام تک سے بھی واقف نہیں ہے ۔ آپ اندازہ کیجئے کہ ایسے معاشرے میں آخر ہم کیسے فروغِ علم کی بات کر سکتے ہیں جہاں ہمارے نزدیک قدر و منزلت کی حقدار علم دوست شخصیات ہی نہ ہوں ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی برصغیر کے نامور سائنسدان، ماہرِ کیمیا اور فنونِ لطیفہ کے سرپرست تھے۔ انہوں نے طبِ مشرق، نامیاتی کیمیا اور ادویہ سازی میں وہ گراں قدر خدمات انجام دی ہیں کہ دنیا آج بھی انہیں عزت اور احترام سے یاد کرتی ہے ۔ انہوں نے پاکستان میں سائنسی تحقیق کے فروغ میں بھی کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 19 اکتوبر 1897 کو لکھنؤ، اُس وقت کے برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ایس سی کی ڈگری حاصل کی اور بعد ازاں جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی سے نامیاتی کیمیا میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ جرمنی میں دورانِ تعلیم ان کو معروف کیمیا دان جولیئس ویرنر کے زیرِ نگرانی تحقیق کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا ۔ یوں تو ڈاکٹر صدیقی کی بہت سی تحقیقات اُن کو ایک باکمال کیمیا دان کے طور پر پیش کرنے کے لئے موجود ہیں، مگر اُن کی سب سے نمایاں تحقیق نیم (Neem) کے درخت سے حاصل کردہ مرکبات پر تھی۔ انہوں نے نیم کے پتوں اور چھال میں موجود فعال اجزاء کو دریافت کیا، جو بعد ازاں ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے لگے۔ اُن کی دیگر تحقیقات میں قدرتی مرکبات، الکلائیڈز اور دیگر نباتاتی اجزاء کی دریافت بھی شامل ہیں ۔ قیامِ پاکستان کے بعد وہ 1951 میں مستقل طور پر پاکستان منتقل ہوگئے۔ وہ ہمیشہ ملک میں سائنسی تحقیق کے فروغ کے لیے کوشاں رہے۔ وہ پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کے بانی سربراہ تھے۔ ڈاکٹر صدیقی نے کراچی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل سائنسز کے قیام میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
سلیم الزماں صدیقی نہ صرف اعلیٰ پائے کے سائنسدان تھے بلکہ لکھنؤ تہذیب سے تعلق ہونے کا زندہ نشان بھی تھے، وہ ادب اور فنونِ لطیفہ کے بھی بہت دلدادہ تھے۔ وہ غالب، اقبال اور میر کی شاعری کے گہرے مطالعہ کے علاوہ، فلسفہ اور مصوری سے بھی خاص شغف رکھتے تھے۔ وہ انجمن ترقی پسند مصورین Progressive Artists’ Movement کے سرپرستوں میں شامل تھے ۔ انہوں نے پاکستان میں فنون کی ترویج کے لیے بھی متعدد اقدامات کیے۔ ان کی انہی سائنسی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انہیں ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز سے نوازا گیا۔ سائنسی دنیا میں ان کے تحقیقی کام آج بھی حوالہ جات میں شامل کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی سائنسی ترقی میں ان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
پاکستان کا یہ عظیم سپوت، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی 14 اپریل 1994 کو کراچی میں وفات پا گئے۔ ان کی زندگی اور کام پاکستان میں سائنس اور تحقیق کی ترقی کے لیے ایک مشعلِ راہ ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بہت سے نامور سائنسدان اور دانشور گردش وقت کے ساتھ بُھلا دیے گئے ہیں ، اور ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا نام بھی ان میں ہی شامل ہے۔ وہ ایک عظیم سائنسدان، مفکر، اور فنونِ لطیفہ کے سرپرست تھے، جنہوں نے نہ صرف سائنسی تحقیق کو فروغ دیا بلکہ پاکستان میں سائنسی اداروں کی بنیاد بھی رکھی۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے ان کی سب سے بڑی پہچان نیم کے طبی فوائد پر تحقیق تھی، جس نے دنیا بھر میں ادویہ سازی میں انقلاب برپا کیا۔ لیکن پاکستان میں ان کی خدمات کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کے نام پر ملک میں کوئی بڑی عوامی یادگار موجود نہیں ہے ، نہ ہی ان کے کام پر مزید تحقیق و ترقی کے تسلسل کو قائم رکھا گیا ہے۔ یہ المیہ ہے کہ ہم اپنے حقیقی ہیروز کو بھلا دیتے ہیں، جبکہ دنیا انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ضروری ہے کہ ڈاکٹر صدیقی جیسے عظیم شخصیت کے کام کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا جائے، ان کے نام پر سائنسی و تحقیقی ادارے قائم کیے جائیں تاکہ ان کی تحقیق کو مزید آگے بڑھایا جا سکے اور نئی نسل ان کے کام سے استفادہ کر سکے ۔ یہ بھی ایک المیہ ہی ہے کہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی خدمات کے اعتراف میں ان کے نام پر کوئی مخصوص سائنسی ایوارڈ موجود نہیں ہے۔ تاہم ان کی یاد میں 1999ء میں پاکستان پوسٹ نے ایک یادگاری ٹکٹ ضرور جاری کیا تھا۔ وہ “ایچ ای جے انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری” کے بانی ڈائریکٹر تھے جو ان کی سائنسی خدمات کا ایک اہم مرکز تھا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتی سطح پر پاکستان کے اس گمنام ہیرو کی یاد منانے کے لئے ضروری اقدامات کئے جائیں۔ 14 اپریل کے دن کو ڈاکٹر صدیقی کے نام سے منسوب کیا جائے ۔ اس دن تعلیمی اداروں میں سائنسی نمائش کا انعقاد کیا جائے ، مختلف یونیورسٹیز میں ڈاکٹر صدیقی کے نام پر فیکلٹیز قائم کی جائیں ۔ ڈاکٹر صاحب جہاں سے پاکستان کی سائنس میں ترقی کا خواب ادھورا چھوڑ کر گئے تھے اس کو اسی طرح ان کے دئیے گئے اصولوں پر استوار کر کے مزید آگے بڑھایا جائے اور ان کے خواب کو حقیقت میں ڈھال دیا جائے۔ یاد رکھئے زندہ قوموں کی بڑی نشانیوں میں سے ایک نشانی اپنے محسنوں کو یاد رکھنا اور ان کی قدرو منزلت نئی نسل کے دلوں میں اجاگر کرنا بھی ہے۔ آج ڈاکٹر صدیقی کو ہم سے بچھڑے 31 سال ہو گئے ہیں ہمیں اس دن کو ڈاکٹر صدیقی کے نام سے منسوب کر کے تمام تعلیمی اداروں میں سائنسی ایکٹیویٹیز کرنی چاہیں، طلباء میں نئی ایجادات پر زور دینا چاہیے ، بہترین پراجیکٹ بنانے والے طلباء میں انعامات تقسیم کرنا چاہئیں، تاکہ طلباء میں یہ بات پختہ ہو سکے کہ اصل میدان علم کا میدان ہے جس میں کامیابی ملک و قوم کی کامیابی کیساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ مشعل جو ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی نے روشن کی تھی اس کو مزید تابناک بنانے کی عملی جدوجہد کی طرف قدم بڑھائے ۔
Leave a Reply