rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
سوہا کی ساڑھی ہی جھلمل نہ تھی، اس کا حسین چہرہ، متناسب قد، Hour glass figure،لمبے کمر سے بھی نیچے تک لہراتے ہوے سنہری بال، دونوں کانوں میں ایک تواتر کے ساتھ جڑے ہوئے سات سات نگینے، ناک میں لشکارے مارتی ہوی لونگ، آنکھوں میں خوابوں کی راجدھانی اور سیاہ کجلے کی دھار، ہاتھوں میں کنگن اور باتوں میں ایک عجب طرح کی دلداری اور دلربای جو عاشقوں کے دل کو کسی آکٹوپس کی طرح جکڑ لیتی تو بس جکڑ ہی لیتی، اس آکٹوپس سے دامن چھڑانا پھر تقریباً ناممکن ہی ہوتا، ہوتے ہیں, ہوتے ہیں کچھ لوگ ایسے جو ہجوم میں چہرہ ہوتے ہیں، اب ایسا بھی نہیں کہ وہ کوی مافوق الفطرت ہستیاں ہوتی ہیں، ہوتے انسان ہی ہیں پر ان کی چھب، سج دھج اور اداءیں انوکھی ہوتی ہیں، ان کی چال ڈھال میں اک عجب طرح کی اداے بے نیازی اور شاہانہ پن ہوتا ہے، ان کی گفتگو کے بول ایسے گداز، نرم اور سحر انگیز ہوتے ہیں کہ بس دل کی خواہش ہوتی ہے کہ ہر پل بس انھیں ہی سنتے رہیں،
دل نے ہر پل ہی تیری خواہش کی
دل نے ہر پل ہی تجھے مانگا پھر
تیرے ہی نام کو سجایا پھر
تجھے ہی پلو میں تھا ٹانکا پھر
بھول بیٹھے دعائیں ساری سب
تجھے ہی رب سے ہم نے مانگا پھر
تو ماہ لقا، بھی ایسی ہی ایک پری چہرہ حسینہ تھی، اس کے بیدار ہونے سے ہی شہر بھی آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھتا تھا، آپ کہہ سکتے ہیں وہ پری چہرہ حسینہ کوی گلفام تھی،کوی اپسرا تھی، کوہ شہزادی تھی یا کچھ بند آنکھوں کا معتبر اور ان چھوا سپنا اور جاگا ہوا خواب تھی، کہکشاں زادی تھی،سچ میں ماہتاب تھی. یعنی بلا مبالغہ وہ اتنی حسین تھی کہ ہر کس و ناکس اس کو دیکھ کے اس کا دیوانہ ہو جاتا، مگر ماہ لقا صرف اور صرف ہارون کی ہی دیوانی تھی، ہارون نہ کوی جاگیر دار تھا نہ کوی رییس زادہ، نہ مل اونر، نہ لینڈ لارڈ، وہ تو ایک عام سا غریب شخص تھا جو کہ مقامی کالج میں ایک عام سا لیکچرار تھا، لگی بندھی نوکری، والدین اور چار بہن بھائیوں کی نہ ختم ہونے والی ذمہ داریاں اور ان سب سے الجھتا
ہوا اکیلا تن تنہا ہارون مصطفیٰ، مگر رونے دھونے سے اگر مسائل کا حل ہوتا تو بڑا آسان ہوتا، دو آنسو صبح بہانا اور دو رات کو بہانا اور زندگی کو بتا دینا. مگر کبھی کبھی مصایب کا پہاڑ یوں سر پہ کھڑا ہو جاتا ہے کہ ایک مصیبت کے بعد دوسری مصیبت خود بخود منہ نکال لیتی ہے، ایسا ہی کچھ معاملہ ہارون کے ساتھ بھی تھا، غربت کے بھنور میں پھنسے ہوے گھرانے کا ساتھ دیتا یا ایک حسینہ کے پیام الفت کو قبول کرتا، اسی کش مکش میں اس سے وہ غلطی سر زد ہو گءی جسے عشق کی کہانی میں گناہ کبیرہ کا نام دیا جاتا ہے اس نے اپنی محبت کی داستان، راز کی بات اپنے بچپن کے دوست فرید سے کر دی اور فرید تھا سدا کا حاسد، اسے پہلی تو ماہ لقا کا ہارون سے عشق ہی کسی بڑے عذاب کی طرح سے اس کے دل و دماغ پہ ٹھاہ کر کے لگا، وہ تو خود ایک عرصے سے ماہ لقا کو دل کے مندر میں دیوی بنا کے چپکے چپکے اس دیوی کی پوجا پاٹ میں مصروف ہو چکا تھا، مگر اب جب اسے معلوم ہوا کہ دیوی کا دل کسی اور کے لیے دھڑکتا ہے اور وہ کوی اور، کوی دوسرا. نہیں بلکہ اس کا اپنا بچپن کا یار ہے تو خواہ مخواہ ہی حسد، جلن کی وبا اس کے دل و دماغ سے ہوتی ہوی اس کے بدن کے سارے مساموں تک سرایت کر گءی اور اس جلن نے اس کی خون کی نالیوں میں وہ زہر انڈیلا کہ اس کا سارا وجود درد سے اینٹھنے لگا گویا کوی کینسر پھوڑا پورے وجود کی دھرتی پہ ایک دم سے آگ آیا تھا،جو اسے نہ سانس لینے دیتا تھا نہ جینے. اس کی حسد سے سیت آنکھوں نے جب شعلے اگلنے شروع کیے تو ان حاسد شعلوں کا شکار سب سے پہلے ہارون ہوا، وہ کالج سے واپسی پہ ایک ٹریفک حادثے میں جان کی بازی ہار گیا، اب جب بیمار دل اور حاسد آنکھوں نے لٹی پٹی ماہ لقا کو تنہا اور کمزور سمجھ کے آی لو یو کا جھوٹا آلاپ دیوی کے سامنے آلاپا تو عشق کی پجارن نے کچھ کہے بنا ہی انکار میں سر ہلا دیا، مگر بیمار دل اور
حاسد آنکھیں، دیوی جی کے تن پہ جونک کی طرح چپک چکی تھیں انھوں نے ماہ لقا کے بدن سے خون کا آخری قطرہ تک چوس لیا، ماہ لقا، ہارون کے چالیسویں تک ہی جی پای، اس حسن دو آتشہ کو ایک ناہنجار، بیمار دل اور حاسد آنکھوں والے شیطان کی شیطانیت کھا چکی تھی.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply