rki.news
تبصرہ نگار : ثناء وقار
”نقش تحریر“ ہندوستان کے قلمکاروں کے لئے قیمتی عطیہ
کتابیں بنی نوع انسان کے لئے بہت مفید ہیں۔ کتابیں معلومات اور علم کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یہ ہمارے تناؤ کو دور کرنے اور اپنے موڈ کو بہتر بنانے کا بہترین طریقہ ہے۔ دماغ کی نشوونما کے لئے پڑھنا ضروری ہے۔ یہ ہماری تنقیدی سوچ اور تجزیاتی مہارت کو بہتر بناتا ہے۔ کتابوں کے مطالعہ سے انسان زندگی کا سلیقہ سیکھتا ہے۔ اچھی کتاب پڑھنے سے روحانی سکون و خوشی حاصل ہوتی ہے۔ کتاب کے مطالعہ سے دنیا بھر کا علم حاصل ہوتا ہے۔ کتابیں علم کا خزانہ ہے۔ معیاری کتابیں انسان کے شعور کو بیدار کرتی ہیں۔ آج کے اس ڈیجیٹل دور میں کتابوں سے محبت قدرت کا بیش قیمتی عطیہ ہے۔ ان ہی نایاب تحفوں میں واجداخترصدیقی کی تصنیف ”نقش تحریر“ ہے جو سن ۳۲۰۲ء میں منظرعام پر آئی۔جو گلبرگہ کے معروف قلمکاروں پر تحریر کردہ ہے۔ ”نقش تحریر“ اس تصنیف کے مصنف واجد اختر صدیقی شاعر، ادیب، محقق و تنقیدنگار اور ہمہ جہت شخصیت کے علمبردار ہے۔ واجداخترصدیقی میدان ادب کے وہ شہ سوار ہیں جو نہ صرف روایتی موضوعات پر قلم اٹھاتے ہیں بلکہ جدید موضوعات کی تلاش میں بھی سرگرداں رہتے ہیں۔ واجداخترصدیقی نے گلبرگہ کے قلمکاروں کو اپنی علمی و ادبی لیاقتوں سے روشن کیا۔ کتاب میں کئی ابواب ہیں جس کے دلکش عنوانات ہیں جو قلم کار کی ہنرمندی اور سلیقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کی نثر کی یہ خوبی ہے کہ تحریر بہت عام فہم اور معیاری ہے۔ ”نقش تحریر“ کے مضامین اور تبصرے رقم کرنے میں آپ نے بڑی محنت و مشقت کی۔ سرزمین گلبرگہ شعر و ادب کے لحاظ سے روشن روایات کی سرزمین رہی ہے۔گلبرگہ کے قلمکاروں کے علاوہ آپ نے ملک بھر کے قلمکاروں پر بھی لکھا ہے۔ تمام قلمکاروں کی زندگی، شخصیات اور کلام کے سبھی پہلو پر بہترین عکاسی کی۔ واجداخترصدیقی کا مبلغ علم کسی ایک جہت کا محتاج نہیں بلکہ علم و فن کے ساتھ شعر و نثر اور تعلیم و تدریس سے بھی رغبت رکھتے ہیں۔ اُن کی تحریروں میں حسن کاری کے بجائے حقیقت پسندی کا جوہر نمایاں ہوتا ہے۔ گلبرگہ کے اہل قلم پر مشتمل یہ کتاب ان کے مضامین، تبصرے اور تجزیے سے آراستہ ہے۔ مضامین کا تنوع قابل دید ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر غضنفراقبال اور ڈاکٹر منظوردکنی جیسے نوجوان قلم کاروں کی ادبی خدمات پر بھی مضامین شامل ہیں۔
موصوف نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ ان کی اس کاوش کے مطالعے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اُن میں ہر ایک فن کے بارے میں وہ گہرا مطالعہ رکھتے ہیں۔ بہت داد قابل ہیں کہ انھوں نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے قلمکاروں پر قلم اٹھایا ہے۔ کتاب کے ابواب کو دلکش عنوانات سے سجایا گیا ہے۔ بابِ روشن، بابِ زماں، باب سخن، باب ایوان، باب فن، بابِ جہاں، بابِ چمن، باب میزان اور بابِ گمان سارے ہی عنوان معنی خیز ہیں اور مصنف کے ذوقِ ترتیب و تزئین کی نمائندگی کرتے ہیں۔ واجد اختر صدیقی قلم و قرطاس کی عظمت کو جانتے ہیں۔ واجداخترصدیقی نے ترتیب کار کی حیثیت سے خوب شہرت حال کی۔ ”نقش تحریر“ کے ذریعہ تنقیدی، تجزیاتی و تاثراتی مضامین کوکتاب بند کر کے بہترین کارنامہ انجام دیا۔
بہرکیف یہ ادبی دستاویز بزرگ قبیلہ اورنسل نو کے اہل قلم کے ادبی کارناموں پر محیط ہے۔ بقول پروفیسر مجید بیدار حیدرآباد دکن ”کتابوں کی تصنیف و تالیف کا شعار اختیار کرتے ہوئے واجد اختر صدیقی نے نہ صرف متوازن نثر کی بنیاد رکھی ہے بلکہ علمی و ادبی اعتبار سے ریاست کرناٹک ہی نہیں بلکہ گلبرگہ کے نام کو جنوبی ہند ہی نہیں بلکہ شمالی ہند میں بھی شہرت سے وابستہ کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔“
ڈاکٹر شفیع ایوب صاحب دہلی فرماتے ہیں: ”واجداختر صدیقی لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں۔ مختلف موضوعات پر لکھتے ہیں۔ تعلیم، تدریس، فکشن، شاعری، شخصیات سب کو سمیٹ کر اپنی ادبی دنیا آباد کرتے ہیں لیکن میرے نزدیک ان کی وہ تحریریں زیادہ قابل توجہ ہیں جو اہل گلبرگہ کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالتی ہیں۔ مختصر لکھنے والے مجھے ذاتی طور پر پسند ہیں۔ واجداختر صدیقی اپنی مٹی کا قرض اتار رہے ہیں۔“
’’نقش تحریر‘‘ اس تصنیف میں واجد اخترصدیقی نے آٹھ ابواب پر مشتمل اِس کتاب کے پہلے بابِ زماں میں گلبرگہ کی نثری تصانیف کا جائزہ بہت خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا۔ دوسرے باب یعنی بابِ سخن میں پروفیسر حمید سہروردی:اظہاریت کی نئی بیل غزل، خمارقریشی کی زندگی تھی، ایک شخص ایک شاعر: تنہاتماپوری، حامد اکمل کی غزلوں میں صنعتوں کی تلاش، جدید غزل کا معتبر شاعر: نصیراحمدنصیر، علامتی پیکر سازی کا شاعر: نصیر احمد نصیر، اکرم نقاش کی غزل گوئی، دھوپ چھاؤں کاشاعر: ڈاکٹر رزاق اثر، صالح اقدار کا امین: جوہر تماپوری، سعیدعارف کی نعت نگاری، سہلِ ممتنع کا شاعر: سعید عارف، سچے جذبوں کا شاعر: عبدالستار خاطر، اردو غزل کی معتبر آواز: محمدیوسف شیخ، رومانی غزل کا شاعر: ڈاکٹر سید عتیق اجمل وزیر، نورفاطمہ انصاری کی سحرانگیز شاعری، ڈاکٹر رفیق سوداگر کی شعری کائنات، فکروفن کا ایک جہاں، رفعت آسیہ شاہین، اردو غزل کی توانا آواز: محمد جاوید اقبال صدیقی۔ تیسرے باب ”بابِ فن“ میں ریاض قاصدار کے افسانے، فن افسانچہ اور منظوروقار، منظوروقار کا ہوا محل، چند روشن پہلو، تماشائی، کا افسانچہ نگار: ڈاکٹر وحید انجم، حنیف قمر کے افسانچے، ڈاکٹر غضنفر اقبال کی فن انٹرویو میں نئی جہت، محمد عرفان ثمین، نئے افسانے کی امید۔ بابِ ایوان میں ڈاکٹر وہاب عندلیب کے خاکے، عبدالرحیم آرزو، ایک ہمہ جہت شخصیت، رشید جاوید: حیات و خدمات، پروفیسر حمیدسہروردی، خالد سعید میری نظر میں، ڈاکٹر وحید انجم، شخص و عکس، اکیسویں صدی کا اہم خاکہ نگار ڈاکٹر وحید انجم، اظہر افسر اور اردو ڈراما، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، تعلیمی مضامین کے حوالے سے، ڈاکٹر انیس صدیقی کا تحقیقی شاہ کار ڈاکٹر انیس صدیقی بحیثیت فاروقی شناس، خاکہ خوش جمال و خوش خصال، ڈاکٹر فرزانہ فرخ، ایک تاثر، پروفیسر حامد اشرف کی نثرنگاری، نئی صدی کا قلمکار ڈاکٹر محمد منظوراحمد دکنی، معنی مضمون کا متلاشی، ڈاکٹر غضنفر اقبال ”بابِ جہاں“ زخموں کی زبان، ڈاکٹر وحید انجم، منظر دھواں دھواں، ڈاکٹر وحید انجم، کلام تجھ لب کا، ڈاکٹر غضنفر اقبال، ”باب چمن“ میں بہرکیف، ڈاکٹر حلیمہ فردوس، جستہ برجستہ، امجد علی فیض، مسکرانا منع ہے، منظور وقار۔ باب میزان: فکر و نظر، ڈاکٹر جلیل تنویر، افلاک، ڈاکٹر نقاش، ڈاکٹر انیس صدیقی، کرناٹک کے اردو قلم کاروں کی ڈائریکٹری، ڈاکٹر انیس صدیقی، خانہئ تکلم، اکرم نقاش، مولانا انوار اللہ فاروقی، پروفیسر محمد عبدالحمید اکبر شخصیت اور کارنامے، تری بات پیاری لگے، ڈاکٹر غضنفراقبال، ڈاکٹر شکیب انصاری: حیات و ادبی خدمات، ڈاکٹر غضنفر اقبال، ڈاکٹر انیس صدیقی گلِ شگفتہ رو، اظہرجمال، سیرت تاج المشائخ علیہ رحمۃ: مولانا حافظ و قاری محمد فخرالدین مانیال، آخری یعنی آٹھواں باب گمان میں زن گزیدہ (افسانہ)، شاہد فریدی، تجزیہ: واجد اختر صدیقی، آئینہ، افسانہئ حسن محمود۔ تجزیہ: واجد اختر صدیقی، شناخت نامہ واجد اختر صدیقی، محمد حامد اقبال صدیقی۔
یہ کتاب آٹھ ابواب پر منقسم ہے۔ پہلے باب میں ”باب زماں“ میں گلبرگہ کی نثری تصانیف اور نثرنگاروں کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے باب ”باب سخن“ میں معتبر شعراء کے شاعری کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ تیسرے باب ”باب فن“ میں افسانوں، افسانچوں اور انٹرویو نگاری پر مضامین شامل ہیں۔ بہترین افسانہ نگاروں کے۔ چوتھے باب ایوان، معزز شخصیات کی شخصیات نگاری پر مضامین ہیں۔ پانچویں باب جہاں مختلف کتابوں کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ چھٹے باب چمن میں مشہور مزاحیہ نگار کے طنزومزاح نگاری کے حوالے سے مضامین شامل ہیں۔ ساتویں باب میزان میں تبصراتی اور تجزیاتی مضامین شامل ہیں۔ آٹھویں باب گمان افسانہ نگاروں کے افسانہ پر تجزیاتی مضمون شامل ہیں۔
بہرکیف ”نقش تحریر“ ادب کے شیدائیوں کے لئے ایک انمول عطیہ ہے جس کے لئے واجداخترصدیقی کو تہہ دل سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ قابل تحسین کارنامہ انجام دیئے۔ یہ بہت قیمتی اثاثہ ہے محبانِ ادب کے لئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ آمین
Leave a Reply