rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
اب آپ سے کیا پردہ،میں صرف بیچارہ ہی نہیں، غضب کا بیچارہ ہوں، یعنی اگر آپ کو سچ بتاوں تو اتنا بڑا بیچارہ ہوں کہ کبھی کبھی تو مجھے اپنے اوپر شدید ترس آتا ہے، میرا دل بے بسی کی شدت سے پھٹنے لگتا ہے اور میں اپنے آپ کو صفحہ ہستی سے غائب کرنے کی تراکیب ڈھونڈنے میں لگ جاتا ہوں،لیکن چونکہ میں بنیادی طور پر ایک کمزور انسان ہوں تو میری ساری پلاننگ دھری کی دھری رہ جاتی ہے اور میں پھر اپنی منحوس شکل اور روتے ہوے ارادوں کے ساتھ دنیا کی دوڑ میں شامل ہو جاتا ہوں،ہاں اس تسبیح کا الاپ ضرور الاپتا رہتا ہوں کہ
بے بسی اتنی بھی نہ ہو یارو
بے بسی اتنی بھی نہ ہو پیارو
سانس لینے میں بھی گرانی ہے
زندگانی نری حیرانی ہو
یہ بے بسی بھی نہ ایک مستقل لبادے کی طرح میرے وجود کا حصہ ہی بن چکی ہے، نہ یہ میری جان چھوڑتی ہے نہ میں اس کی جان چھوڑتا ہوں تو ہم دونوں مستقل ناراض میاں بیوی کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوے بھی سدا ایک دوسرے سے نالاں ہی رہتے ہیں. خیر بات ہو رہی تھی میری بیچارگی کی کہ میں ایک بہت ہی بیچارہ قسم کا انسان ہوں، ویسے تو اکیسویں گریڈ کا افسر ہوں، بڑی پوسٹ پہ ہوں، گاڑی بمع باوردی ڈرائیو اور دیگر سہولیات جیسی فری میڈیکل، گاڑی کا پٹرول، گھر کا کرایہ، مختلف قسم کے الاونسز وغیرہ وغیرہ وغیرہ جیسی سہولیات ایک اچھی سیلری کے ساتھ ساتھ مجھے میسر ہیں. یعنی میری قابلیت کے مطابق میری جاب بہترین ہے مجھے جھک کے سلام کرنے والے بہت ہیں لیکن میری منحنی شخصیت اور بزدلی کا جنازہ روز میرے گھر میں دھوم دھڑکے سے نکالا جاتا ہے بلکہ متعدد بار نکالا جاتا ہے،کیا بتاؤں بیوی میری گستاخ، اب آپ پوچھیں گے کہ گستاخ کس طرح تو اس طرح کہ میں اسے کہہ کہہ کے تھک چکا ہوں کہ مجھے تمہاری نوکری کی ذرا بھر ضرورت نہیں، گھر بیٹھو، کھانے بناو، بچوں کو وقت دو مگر نہ جی بیگم صاحبہ کے تو تیور ہی نہیں ملتے وہ ایف سیکسٹین پہ سوار ہمیشہ اونچی اڑان میں رہتی ہیں، ہوں نہ بیچارہ میں، تو واقعہ دراصل کچھ یوں ہے کہ میری بیگم ہی فرم کی انچارج ہے جس فرم میں، میں اکاؤنٹ ڈائریکٹر ہوں، اس فرم میں جاب کرنے آیا تو میرے سسر صاحب کو خدا جانے، مجھ میں کیا جواہر پارے نظر آے کہ انھوں نے مجھے اپنی اکلوتی بیٹی کے لیے پسند کر لیا، اسو قت مجھ نمانے کو یہ رشتہ ایسا ہی تھا جیسے کسی برسوں کے پیاسے کو دو گھونٹ پانی کے مل جایں، خیر میں گھر داماد ہو گیا، گویا دفتر اور گھر میں مستقلاً بیچارے کی ڈگری میں نے خود شوق سے منتخب کی. ہمارے سماج میں گھر جمای کی کیا عزت اور کیا مقام ہوتا ہے، آپ سب بخوبی آگاہ ہیں، تو میری بیچارگی تو اب آپ پہ واضح ہو گءی ناں، چونکہ میری بیوی میری باس بھی ہے تو مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے تمام احکامات کی تکمیل کرنی ہی پڑتی ہے بھلے میں اسے گستاخ کہوں یا نہ وہ مجھے اکثر و بیشتر گستاخ کہہ کر میری بیچارگی کا مذاق اڑاتی ہی رہتی ہے، پھر باری آتی ہے میرے بچوں کی تو وہ بالکل بھی میرے فرمانبردار نہیں ہیں، انھیں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں صرف اور صرف ان کی والدہ اور ننھیال ہی کا حصہ ہے تو ہو گیا نہ میں بیچارہ، میرے والدین چک 34 گیمبر عارف والا کے غریب ہاری جنہوں نے پیٹ پہ پتھر باندھ کے مجھے اس امید پہ پڑھایا لکھایا تھا کہ شاید ان کے برے دن بھی اچھے ہو جاییں، مگر وہ جب جب ہمارے پاس آے میری بیوی کے ماتھے کی تیوریوں میں اضافے ہی کا باعث بنے، تنگ آ کے ابا جی نے کہہ ہی دیا پتر ہم اپنی واہی اور ڈنگروں پہ گزارا کر لیں گے، سمجھیں گے کہ پتر تھا ہی نہیں، تو جس بیٹے کو جیتے جی اپنے والدین کی خدمت کا موقع نہ مل پاے، ہو گیا نہ وہ بیچارہ. اور رہ گیے رشتہ دار اور ہمسائے تو ان کےسامنے جتنی سبکی میری ہوتی ہے، اگر میرے بس میں ہوتا تو کسی بھی اگلی صبح کو بیدا ر نہ ہوتا میں، مگر میرے اختیار میں تو کچھ تھا ہی نہ اور نہ ہی کبھی ہو گا.
مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میرے ملازمین جو میرے سامنے یس باس یس باس کی گردان کرتے نہیں تھکتے، پیٹھ پیچھے مجھے چغتیا، گھر داماد، کمینہ اور نجانے کیا کچھ کہہ کر ٹھٹھے لگاتے ہوں گے اور سچ بھی یہ ہی ہے کہ بیس ہزار روپے کمانے والا ہمارے گھر کا چوکیدار زیادہ عزت دار اور اپنے بیوی بچوں کا پیارا ہو گا میں تو ہوں ہی ازلی شودا، نمانا اور بیچارہ
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
Punnam Naureen 1@icloud.com
Leave a Reply