Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بیچارہ قیدو بہت مجبور ہے

Articles , Snippets , / Tuesday, April 29th, 2025

rki.news

داءی نے کمرے کی چک ہٹا کے بے چینی سے ٹہلتے ہوے اویس محمد کو جیسے پل صراط سے اتار لیا. مبارک ہو جی بیٹا ہوا ہے. دای کی بھی اللہ نے سن لی اور اویس محمد کی بھی. چند لمحے پہلے کی جان کنی کا عالم بیت چکا تھا خوشیوں کی بارات اچانک ہی اتر آی تھی. چار بیٹیوں کے بعد آنے والے بیٹے کی ٹھنڈ کتنی زیادہ ہوتی ہے یہ انڈو پاک میں رہنے والوں سے بہتر کون جان سکتا ہے. اویس محمد نے اللہ پاک کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا کہ بہنوں کے سر کا سائیں آ گیا اور اس کے اور اس کی زنانی کے بڑھاپے کا سہارا آ گیا. محمد اویس کے گھر غربت کے ڈیرے تھے مگر اس نے بیٹے کی خوشی میں سارے پنڈ کو جلیبی کھلای ڈھول بجواے کمی کمین برادری کو خوش کیا اور اپنی گردن میں بھی خواہ مخواہ کا سریا اڑا لیا. یعنی
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
تو یہ غرور ہم انسانوں کو نہ ہی زیب دیتا ہے اور نہ ہی راس آتا ہے بلکہ سچ میں بڑا ہی رلاتا ہے.
تو محمد اویس کو چار بیٹیوں کے بعد ملنے والا بیٹا ایسا ہی تھا جیسے کسی اناڑی ہاتھ میں ہنر آ جاے. جس کا فایدہ تو شاذونادر ہی ہوتا ہو نقصان زیادہ ہو جاتا ہے. بیٹیوں کے تمام حقوق سلب کر کے بیٹے کو ہر شے عطا کر نے والے بھول گئے کہ رب کی لاٹھی بے آواز ضرور ہے لیکن بے انصاف نہیں بیٹیوں کو سکولوں سے چھڑا کے گھر کا چولہا چوکی سکھا کے بابل کی دہلیز بچپنے میں ہی پار کروا دی گئی کہ بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں کیا فائدہ پراے دھن پہ مال پیسہ خرچ کرنے کا. دو بہنیں وقت سے ہی بربادی کا تمغہ سجا کے بابل کی دہلیز پہ لوٹ آءیں تو بابل کے ساتھ ساتھ بالک کی کمر بھی مانو ٹوٹ ہی گءی. بالک کا نام تو باپ نے بڑے چاو سے شہنشاہ مہدی رکھا تھا مگر نام کی حد تک شہنشاہ ہونا ٹھیک ہے مگر قسمت میں شہنشاہی رب کی عطا سے آتی ہے. اور اگر رب کا حکم نہ ہو تو پھر دھکے پہ دھکے کھاتے ہوئے شاہ و گدا دنیا کی سراے سے بے نیل و نامراد گزر جاتے ہیں اور قبروں کے کتبوں پہ یہ مصرع لکھ کے غم ناتمام کو منا لینا مناسب خیال کیا جاتا ہے.
حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گیے.
اگر کوئی حرماں نصیب یہ سوچ کے بیٹھا ہے کہ وہ ہی عقل کل اور میر کارواں ہے تو شاید اس سے بڑا احمق اعظم کوئی ہو ہی نہیں سکتا
ہر کوئی اپنے اپنے کو اعظم ہی سمجھتا رہا
کوی خاقان اعظم
کوی اکبر اعظم
کوی سکندر اعظم
کوی یزید اعظم
ہمیشہ سادہ لوگوں اور ساد لوحی کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دنیا کے لوگ محظوظ ہوتے رہے انجوائے کرتے رہے
لوگوں نے سادہ دلی کو بھی کھیل سمجھ کے
چند سادہ دل لوگوں کے بخیے ادھیڑے ہیں
سب شہر کی گلیاں سدا سونی ہی دکھی ہیں
ان گلیوں میں مگر میری یادوں کے ڈیرے ہیں
یہی دیکھتے دیکھتے بچپن سے جوانی اور جوانی سے بڑھاپے تلک آ پہنچے کہ طاقتور کمزور پہ صرف حاوی ہی نہیں حاوی رہنے کے سو سالہ جتن کی بھی پلاننگ کرتے ہیں.
شہنشاہ مہدی کے نصیب میں بیٹے کے تمام فرائض پہلے دن ہی دے لکھ دیے گیے تھے. گھر اور گھر والوں کی ذمہ داریاں، حق ہمسائیگی کی ذمہ داریاں، رشتہ داروں کی ذمہ داریاں، روزی روٹی کی ذمہ داریاں، والدین اور چار عدد بہنوں کی ذمہ داریاں. اور جب شہنشاہ مہدی کی سگای کا موقع آیا تو خاندان میں پہلے سے موجود پھوٹ مزید پھوٹ پڑی کءی ناراضگیاں ہویں. کءی شکوک و شبہات مزید ہوے اور سب سے بڑھ کر شہنشاہ مہدی کی پسند کا سر عام خون کر دیا گیا یہ پہلی بہت بڑی قربانی تھی جو بیچارے قیدو نے سر جھکاتے ہوے خاموشی سے دے دی پھر تو مان لیجیے قربان ہونا اس شہنشاہ کے لیے فرض ہی ہو گیا جو ایک دفعہ سولی چڑھ گیا اسے سماج بار بار سولی چڑ ھانا اپنا فرض سمجھ لیتا ہے.
تو شہنشاہ نے بچپن ہی سے بیٹا ہونے کا خراج زمانے کو دینا شروع کر دیا تھا. نہ ہی پسند کی شادی ہو سکی نہ چاہتے ہوے بھی مارے مجبوری کے اعلی تعلیم کی خواہش کا گلا گھونٹ کر اپنی آبائی کریانے کی دوکان پہ بیٹھنا پڑا والدین کی خواہش کا مان رکھتے ہوئے چاروں بہنوں کے سسرالیوں کے سامنے مفت کے غلام کی طرح سر جھکانا پڑا کءی مقامات اس کی زندگی میں ایسے آے کہ اس کا جی چاہا کہ زندگی سے کنارہ کر لے چلتی ہوئی گاڑی میں سے چھلانگ لگا لے یا بہتے ہوے پانی کی لہروں میں ایک لہر بن جاے مگر یا تو وہ اتنا بزدل تھا یا اتنا روایت پسند کہ اسے ایسا کچھ سوچتے ہی اسے سماج، رشتہ دار اور اونچ نیچ خواہ مخواہ ہی سامنے کھڑے نظر آ جاتے وہ دل کی دل میں رکھ کے بے فیض زمانے کو خوش کرنے کے جتن میں جی جان سے مصروف ہو جاتا ساری عمر اس مرد قلندر نے اپنے ہونے کی سزا کاٹی نہ کھل کے رو سکا اور نہ ہی کھل کے ہنس سکا حقوق و فرایض کی اندھی جنگ لڑتے لڑتے جب اس کا دل دھڑکنا بھول گیا اور اسے اپنے علاج کے لیے بند شریانوں کو کھلوانے کے لیے دل کے ہسپتال میں داخل ہو نا پڑا تو اس سدا کے قیدی پسر آدم پہ یہ کڑی حقیقت آشکار ہوی کہ اپنے اپنے دکھوں کا تعویذ گھول کے پیتے پیتے اپنے آپ کو کءی کءی روگ لگا کے دل کے ڈاکٹرز کے حوالے ہو جاتے ہیں اور یہ کڑوا سچ جان کر شہنشاہ کی ریڑھ کی ہڈی میں سنسناہٹ دوڑ گئی کہ دل کی بیماریوں میں مرد ہی زیادہ مبتلا تھے کیونکہ مرد کو ماں گود ہی میں یہ سبق ازبر کرا دیتی ہے مرد روتے نہیں ہیں
مرد بہادر ہوتے ہیں
مرد قربانیاں دیتے ہیں
مرد صبر کرتے ہیں
اور سب سے بڑا روگ جو مرد پالتے ہیں وہ عشق دل و جان سے کرتے ہیں اور اپنے خاندان کی دیکھ بھال کے لیے اپنی جان کی بازی لگانے سے بھی نہیں چوکتے. کءی کءی شادیاں کر لیتے ہیں اور پھر نبھانے سے بھی نہیں چوکتے
اور اپنے دل پہ روگ لاد لاد کے دل کو ہی روگ لگا لیتے ہیں.
دل کو روگ لگا لیتے ہیں
روتوں کو ہنسا لیتے ہیں
بگڑی کو بنا لیتے ہیں
یہ جو پسر ہیں حوا کے
خود کو دار چڑھا لیتے ہیں
نیا پار لگا لیتے ہیں
دنیا کے تمام قید مردوں کے نام
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International