بیچاری نگہت اور ناہید کی دادی
بڑھاپا اور بسترے پہ پڑا ہوا بڑھاپا کتنی بڑی آزمائش ہے کتنابڑا امتحان ہے کس قدر بڑا روگ ہے، کتنا سوہان روح ہے، کتنا بڑا جان کا روگ ہے کتنا تڑپاتا ہے، کتنا رلاتا ہے ان کے لیے بھی جنہیں قسمت نھ صرف اور صرف بستر تک محدود کر دیا اور ان کے لیے بھی جو اپنے پیاروں کو اس جان کنی کے عالم میں دیکھتے، برداشت کرتے ان کے دکھ دردکو کم کرنے کے جتن کر کر کے ہلکان ہوتے ہیں انکی خدمت میں ہر ممکن حد تک جاتے ہیں نرسنگ کییر سے لیکر ہر طرح کے علاج معالجے تک راتوں کے. جگ راتے سے مصلوں پہ کھڑے ہو کے یا سجدوں میں ہچکیوں کے ساتھ کی جانے والی دعاووں کے ساتھ ساتھ ، بستر تک محدود یو جانے والوں کی بے شمار بیماریوں اور لا محدود پرہیز وں کے باوجود ان کے مننہ میں ان کے من پسند کھاجے ڈالنا بھی محبت کی چند اداوں میں سے یی ایک ادا ہے.
محبت کی اداءیں سب
تمہیں پہ وار دیتے ہیں
جہاں جانا ہے تم جاو
اسی دیار جاتے ہیں
تمہاری مان لیتے ہیں
چلو ہم ہار جاتے ہیں
بات جب بھی محبت کی ہو گی اس کی دو انتہا وں کے ذکر کے بغیر یہ ذکر ادھورا ہو گا. ایک وفا کی بلندی پہ محبت جو لیلیٰ مجنون، شیریں فرہاد، سسی پنوں، ہیر رانجھا، رومیو جیولیٹ اور سوہنی مہینوال کی صورت میں تاریخ کے اوراق پہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم ہو گءی اور محبت کی وہ خود غرضی بھی ہم نے دیکھی جہاں پیار کے جھانسے دے کر کنواری لڑکیوں کو گھروں کی دہلیزیں پار کروا دی گییں. جہاں چاہنے والوں نے جھوٹے ناٹک کر کے اپنی محبوباوں کو سڑکوں پہ مانگنے کے لیے بے یارو مدد گار چھوڑ دیا اور میں خون کے آنسو روتے ہوے یہی کہہ پای
نام لے لے کے تیرا اے الفت
لوٹنے والوں نے کیا کیا لوٹا
بات بوڑھے اور بچے کی بے بسی کی ہو رہی تھی مگر ان دونوں بے بسیوں میں زمین آسمان کا فرق ہے. بچے کی بے بسی کو لوریاں دینے والے ہاتھ ماں کے علاوہ بھی بہت زیادہ ہوتے ہیں اور لوگ ہنسی خوشی چھوٹے بچے کو سمبھالتے اور اس کے لاڈ اٹھاتے ہیں بچپن کی اداوں سے دل لبھاتے اور بچوں کو ہواوں میں اچھالتے اچھالتے ہمارے نو مولود کب ہمارے کندھوں سے بھی اوپر آ جاتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا. اور یقین کیجیے اگر بچے اپنی معصومیت اور قلقاریوں کے تحائف ہمیں نہ دیں تو جیون بہت ہی روکھا پھیکا اور بے رنگ ہو جاے گا.
بچپن ہم ساروں کی زندگیوں کا وہ سنہرا دور ہے جس میں ہم سب بغیر سوچے سمجھے وآپس جانے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں. اور جگجیت سنگھ کا گایا ہوا گانا یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو وہ میرا بچپن
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی. تو ہم سب اپنے اپنے بچپن کو صداءیں دیتے رہتے ہیں اور اپنے بڑوں اپنے بزرگوں کو اپنے بچپن کے ہاسے دان کر تے ہوے بزرگی کا چولا پہنتے چلے جاتے ہیں مگر ضعیفوں کو سمبھالنا انتہائی مشکل، انتہائی جان جوکھوں کا کام ہے وہ ترکش کہاوت تو آپ نے سنی ہی ہو گی باپ اپنے بیٹے کو نہلا کے خوش ہوتا ہے مگر جب بیٹا اپنے باپ کو نہلاتا ہے تو روتا ہے. کیونکہ اپنے پیاروں، اپنے بزرگوں کو معذوری کی حالت میں دیکھنا انتہائی مشکل اور جان لیوا امر ہےاور پھر بڑھاپا اور معذوری والا بڑھاپا تو اچھے اچھوں کا بھرکس نکال دیتا ہے اپنے اردگرد نظر ڈورا کے دیکھیے تو سہی کہ لوگ باگ اپنے بزرگوں کے ساتھ ان کے بڑھاپے میں زمینیں، جائدادیں اور مال و دولت ہتھیانے کے بعد کتنا ہتک آمیز سلوک کرتے ہیں سچ دل خون کے آنسو روتا ہے.
یہ سنتے آئے تھے اکثر
دل خون کے آنسو روتا ہے
پر آج سمجھ میں آیا ہے
کہ خون کے آنسو کیا معنی
تو نگہت اور ناہید کی دادی بھی اپنے وقت کی بادشاہ زادی تھی. دودھ ملای جیسی رنگت والی بی جی ناٹے قد گھنگھریالے بالوں اور مست کر دینے کی حد تک خوبصورت نقوش کے ساتھ دوسروں پہ چھا جانے والی شخصیت تھیں. جہازی سایز کے محل نما گھر میں حکم آخری سانسوں تک بی جی ہی کا چلتا رہا اور تو اور میاں جی نے بھی بی جی کی راجدھانی میں کبھی دخل در معقولات کی نیت بھی نہ کی تھی تو پھر بی جی کی گردن میں سریا اور چال میں نخرہ تو بنتا تھا ناں چار بچوں کی ماں بی جی راجپوت منشن میں کسی مست مورنی کی طرح محو رقص رہتی تھیں. بیٹیوں کی رخصتی اور بہووں کی آمد نے بھی بی جی کی راجدھانی میں کسی قسم کی کوی ہلچل نہ مچای تھی آنے والیوں نے کہاں کہاں سے چوٹ کھای اور کون کون سے زخم سے اپنے تن کو سجایا سر چڑھی بی جی نے کبھی یہ سوچا بھی نہ. دونوں بہووں کی دو ہی بیٹیاں تھیں نگہت اور ناہید. بھلے بی جی بہووں کے مقابلے میں اپنی پوتیوں کے لاڈ بھی اٹھاتی تھیں اور ان کی ناز برادریوں میں بھی لگی رہتی تھیں مگر پوتیوں کے سامنے جب ان کی ماووں کو جی بھر کے ذلیل کیا جاتا تھا تو پوتیوں کو اپنی اس بادشاہ زادی دادی سے شدید نفرت محسوس ہوتی تھی مگر چونکہ تربیت میں وضع داری کا رچاو تھالہذا دونوں بچیاں اپنی اپنی ماؤں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پہ خون کے کڑوے گھونٹ پی کر دل مسوس کر رہ جانے کے سوا کر بھی کیا سکتی تھیں ساری عمر اسی رونے دھونے میں گزرانے والی بہووں کے دل میں ساس سے محبت کا تو سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا ہاں نفرت کے نوکیلے کانٹے دار، صحرای پودوں نے خوب سر اٹھا لیے تھے. بادشاہت کے سکے خوب اچھل رہے تھے اچانک بی جی کچن میں کیبنٹ میں سے ٹرے نکالتے ہوے سر کے بل یوں برے طریقے سے گریں کہ سر کا پچھلا حصہ بالکل ہی پچک گیا کہ occipital bone ٹوٹ کے دماغ کے اندر ہی دھنس گءی. بی جی بے ہوش ہو گییں، اور پھر ایسی بے ہوش ہوییں کہ اگلے چار سالوں تک ہوش میں نہ آ سکیں اینجی ٹیوب، پیشاب کی نالی، پیمپرز پیشاب پاخانہ
سمیٹے والے خود بھی پیشاب پاخانہ بن گیے تھے مگر نہ بی جی کی خلاصی ہوتی تھی اور نہ ہی بی جی کا خیال رکھنے والوں کی اور کاش کہ اپنی بہار رت میں دوسروں کی بہار کو خزاں کرنے والے یہ سوچ لیں کہ جب ان کی خزاں آے گی تو پھر انھیں کیا محسوس ہوگا ان کے غم و حزن اور عالم تنہائی کو بانٹنے کون آے گا آپ سب بھی جب کسی کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نبھانے جایں تو وضع داری ضرور برتیے گا ورنہ وقت کی ننگی تلوار آپ کے آر پار ہو جاے گی اپنے ہی ایک شعر کے ساتھ اجازت
وضع داری ہی مات کرتی ہے
ورنہ تو تیر ہے زباں… اپنی
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoctorpunnam@gnail.com
Leave a Reply