تحریر۔۔۔روبینہ ناز( ضلع باغ آزادکشمیر)
انسان دنیا میں اتے ہیں اور بلاخر جتنا بھی جی لیا جاے موت نے اخر آ کر رہنا ہے. ہر ذی روح کا سفر موت کی طرف گامزن ہے. انسان کی موت ایک غم ہے مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے جن کی موت کا غم بھی الگ سا ہوتا ہے کیوں کہ وہ معاشرے کے اہم اور قیمتی لوگ ہوتے مجموعی طور پر پورے سماج کا نقصان جب ہو جاے تو غم بھی مشترک ہو جاتا ہے. 27 دسمبر کو خونی لیاقت باغ پھر سے ایک عظیم لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کا چراغ گل کر گیا. طویل عرصے کی امریت کا اختتامی مرحلہ مکمل ہونے کو تھا اور انتخابات قریب تھے میثاق جمہوریت کے بعد کی انتخابی مہم سابقہ ادوار سے مختلف تھی. جلا وطن دو اہم راہنما بے نظیر بھٹو شہید اور میاں محمد نواز شریف وطن واپس آ کر انتخابات میں حصہ لے رہے تھے. بے نظیر بھٹو شہید کو آگاہ بھی کر دیا گیا تھا کہ ان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہے وہ انتخابی سرگرمیوں کو محدود کریں اور اپنے ارد گرد حفاظتی حصار رکھیں . سانحہ کار ساز میں دھماکوں کے باوجود بی بی شہید ڈری نہیں اور کارکنوں کے درمیان ملک بھر میں انتخابی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا غزم لیے مصروف رہی. بھٹو خاندان سیاست میں متعارف تھا ہی مگر باوجود کوشش کے بی بی شہید کی مقبولیت کم نہ ہوٸی تو مختلف حیلے بہانوں سے انہیں روکنے کی کوشش جاری رہی. ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے وقت سولہ سالہ بہادر بیٹی بھٹو کی جانشین ٹھری اور نامساعد حالات میں بھی لڑکھڑای نہیں ثابت قدم رہہی اور قید و بند کی صعبتیں برداشت کرتی رہیں. ان کا سیاسی کردار بڑا واضح اور دوٹوک رہا امر وقت کے اگے سینہ سپر رہیں اور جمہوریت کی بحالی کے لیے تا دم مرگ کوشش جاری رکھی. اعلی تعلیمم یافتہ لیڈر بحثیت بیوی اور باحثیت ماں بھی مثالی کردار ادا کر کے خواتین کے لیے رول ماڈل بن گیں. جلا وطنی کے دوران بھی ہ ملک کی نمایندگی دنیا بھر کے مختلف ممالک میں کرتی رہیں. بی بی شہید صرف سیاست دان ہی نہیں تھی بلکے ایک قلم کار بھی تھی ان کی متعدد کتب اج بھی پڑھی جاتی ہیں گویا وہ قلم کی پاسبان بھی تھیں. یہ کتنا مشکل ہوتا ہے کہ باپ کو پھانسی لگا دی گٸی دو بھاییوں کو قتل کر دیا گیا مگر غموں کے پہاڑ اٹھاے یہ بہادر خاتون سرگرم عمل رہی نہ جھکی نہ ہار مانی. اعلی پاے کی مقرر مصنفہ سیاست دان اور پہلی منتخب مسلم خاتون وزیر اعظم کے اعزازات بی بی شہید کی شحصیت کا منفرد انداز ہے. لیاقت باغ میں جلسہ عام سے خطاب کے بعد وہ کارکنوں کے جوش و ولولے کو دیکھ کر جوں ہی باہر گاڑی سے سر نکالا طاق میں بیٹھا دشمن حملہ آور ہوا انہیں زخمی حالت میں ہسپتال پہنچایا گیا مگر زخموں کی تاب نہ لاتےہوے شہادت کے درجے پر فایز ہو گٸی. ان کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کو اقتدار تو ملا مگر وہ ایک جاندار قیادت سے محروم ہو چکی تھی. بی بی شہید کی شہادت سے جو نقصان مجموعی طور پر ہوا اس کا ازالہ ممکن نہیں ہے وہ اج زندہ ہوتی تو اج کی جمہوری حکومت مختلف ہوتی. ان کے فرزند بلاول بھٹو کو محترمہ کا جانشین اور چیرمین منتخب کیا گیا جو کہ اعلی تعلیم یافتہ ہیں اور محترمہ کی وفات کے بعد جمہوریت بہترین انتقام ہے کہ نعرے کے ساتھ میدان سیاست میں موجود ہیں. ان کے شوہر آصف علی زرداری اس وقت صدر مملکت ہیں اور مفاہمتی سیاست کے اہم کردار کے طور پر جمہوریت کی مکمل بحالی تک مصروف عمل ہیں. یقینا بی بی شہید کی کمی کو تو پورا نہیں کیا جا سکتا مگر ان کے راہنما اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوے جمہوری طرز عمل کو بہتر بنایا جا سکتا ہے. پارٹی کو کارکنوں کی مشاورت سے مضبوط بنانے کی ضرورت ہے اور روٹی کپڑا مکان کے نعرے کو عملی جامہ پہنا کر محترم کی روح کو تسکین پہنچانا موجودہ قیادت کی ذمہ داری ہے نظریاتی کارکنوں کو جایز مقام دے کر بی بی شہید کے مشن کو مکمل کیا جاے دعا ہے اللہ پاک بی بی شہید کو جنت الفردوس میں جگہ عطا کرے آمین
Leave a Reply