Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بے حرمتی کی ہم نے حد کر دی

Articles , Snippets , / Tuesday, July 15th, 2025

rki.news

تحریر ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
بات صدمے کی. ہی تھی، جہان آرا پچھلے تین دنوں سے دردیں لے لے کر ادھ موی ہو چکی تھی،نہ دردیں زور توڑتی تھیں نہ ہی بچے کی پیدائش کا مرحلہ طے ہوتا تھا، اب بھلا کوی کتنی کوں دردیں اپنی جان پہ برداشت کرے؟؟؟
ہر تکلیف کی کوئی حد ہوتی ہے ناں، ہر درد کا کوئی انجام ہوتا ہے ناں مگر جہاں آرا کی اب سچ میں بس ہو چکی تھی، پچھلے اڑتالیس گھنٹے اس کی زندگی میں عذاب کی طرح داخل ہوے تھے، دردیں لہروں کی شکل میں ابھرتی، پھیلتیں، اپنی پوری شدت کو پہنچتیں اور پھر پیٹ کے سمندر میں غایب ہو جاتیں وہی چند ساعتیں جہاں آرا کو آیندہ آنے والی مزید دردوں کے لیے تیار کرتیں اور جہاں آرا دردزہ کی مزید کٹھنایوں کے لیے اپنے آپ کو تیار کر لیتی، مگر اب تو حد ہی ہو چکی تھی، جہاں آرا کے ساتھ ساتھ گھر کی وہ تمام بڑی بوڑھیاں جو جہاں آرا کو پچھلے دو دنوں سے دردیں لینے کے لیے اکساتی اور ہمت بدھاتی تھیں ان کی اپنی ہمت بھی دم توڑ چکی تھی، شاید دردیں لینے کا یہ کھیل مزید اور چلتا کہ ایک جہان دیدہ بزرگ خاتون نے عقل سے کام لیتے ہوئے جہاں آرا کو بڑے ہسپتال لیجانے کی صلاح دی اور پھوپھو سطوت آرا کو مریضہ کے ساتھ روانہ کر دیا گیا، بڑے ہسپتال میں وڈی ڈاکٹرنی نے جہاں آرا کے ساتھ ساتھ سطوت آرا جے بھی خوب لتے لیے، اتنی بے تحاشا دردوں اور صبر آزما تکلیف کے بعد آخر کار بڑے آپریشن کے ذریعے بچی کی پیدائش ہوی تو جہان آرا کی دردیں کءی ہزار گنا زیادہ ہو گییں، پہلی درد بے تحاشا سہی جانے والی ان دردوں کی تکلیف جن کو جسم و جان پہ سہہ کے بھی کچھ حاصل نہ ہوا تھا، دوسری درد اتنے بڑے آپریشن کی اور تیسری اور سب سے بڑی درد بیٹی کو جنم دینے کی، میکے، سسرال، رشتہ دار، ہمسایوں، محلے داروں اور سب ملنے جلنے والوں نے منہ ٹیڑھا جر کے ہاے ہاے بیٹی ہوی کا الاپ گایا، جہان آرا نے پھولے پھولے گالوں پر معصوم ڈمپل والی اس چھوٹی سی بچی کے لیے بے پناہ محبت جے ساتھ ساتھ بے شمار اذیت بھی محسوس کی، ہاے کیا میری بیٹی بھی دنیا کی تمام عورتوں کی طرح زمانے کی نفرت کی زد میں رہے گی کیا اسے بھی لوگوں کے نا پسندیدہ رویوں کا یونہی شکار ہونا پڑے گا جیسے مجھے ہونا پڑا اور یہ تو سطوت آرا کی سوچ تھی، دنیا نے دیکھا کہ وہ ننھی بچی جب بڑی ہوی، تعلیم یافتہ ہوی، اس کی آنکھوں نے خوابوں کی اپنی ہی ایک الگ دنیا سجا لی تو سب سے پہلے اس کے گھر والوں نے اس کے خوابوں کا گلا گھونٹ دیا، اسے گھر سے بے گھر ہونا پڑا، کراے کا ھھر، اجنبی دیس،پراے مکان،اور وحشی رویے.
پراے مکانوں میں کیسے جیتے
کیا سانس لیتے کیا زخم سیتے
کیا وہاں کھاتے اور کیا ہم پیتے
لیکن سوہا علی خان کے خوابوں کی گھٹری اتنی وزنی تھی اور زمانے کا چلن اتنا ڈراونا اور بھیانک تھا کہ اس لڑکی کی قدم قدم پہ تذلیل ہوی، تحقیر ہوی، اس کا تماشا بنایا گیا، اس کی تضحیک کی گءی، اسے دھتکارا گیا، اسے بھوکا مارا گیا، بھلا شوبز کی دنیا بھی کسی کی ہوی ہے، بھلا شو بز کے لوگ بھی کسی کے ہوے ہیں بھلا شو بز کی دوستیاں بھی کبھی توڑ چڑھی ہیں،
چڑھتے سورج کی پجاری دنیا
کچھ نہ تھی، جھوٹ تھی ساری دُنیا
ماں کہتی تھی اگر گھر سے بھوکے پیاسے نکل آییں تو پھر تمام سفر میں بھوک اور پیاس ہی آپ کی ہمسفر ریتی ہے اور سوہا علی خان تو اپنے گھر کی وہ اولاد تھی جسے اپنے گھر ہی سے پیدا ہوتے ہی کھڈے لین لگا دیا گیا تھا، نہ کھلونے نہ خوراک، نہ لباس، نہ تعلیم اور نہ وراثت، سوہا علی خان نے جب ایکٹنگ کا خواب اپنی سندر آنکھوں میں سجایا تو بھی اسے اس خواب کی قیمت بمع سود کے چکانی پڑی، معاشرے کے کتوں نے اس کے جسم کو بھنبھوڑا، اسے لہو لہان کیا، اسے گھایل کیا، اس سے اس کا زاد راہ چھینا، اسے بھوکا پیاسا چھوڑ کے آخر کار اسے جان ہی سے مار دیا،مرنے کے بعد بھیناس کی تحقیر ختم نہ ہوی اخبارات اور ٹی-وی والوں کے ہاتھ اک نیا شغل ہاتھ آ گیا کسی نے کہا اس ماڈل کی موت نشے کی زیادتی کے پاس ہوی؟ کچھ نے کہا کہ اس کی عزت لوٹئ گءی، اجتماعی ریپ ہوا غرض جتنے منہ اتنی باتیں ایک لڑکی جو ہماری، آپ کی بہن، بیٹی ہو سکتی تھی اس کی اس کے جیتے جی اور اس کے مرنے کے بعد؛اس کی اتنی تحقیر کی گءی کہ وہ ساری دنیا کے لیے نشان عبرت بن گءی، خدا پماری اور آپ سب کی بیٹیوں کا حامی و ناصر ہو.
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور punnam.naureenl@icloud.com
۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International