Today ePaper
Rahbar e Kisan International

بے حسی جرم ہے

Articles , Snippets , / Sunday, July 13th, 2025

rki.news

کالم نگار: سلیم خان
ہیوسٹن (ٹیکساس) امریکا

کہتے ہیں انسان وہی ہے جو دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرے۔ جس کا دل دوسروں کے لیے دھڑکے، جو آنکھ کسی کے رنج و الم پر اشک بار ہو، اور جو قدم کسی کی مدد کے لیے آگے بڑھیں۔ مگر افسوس! آج کے انسان نے دل کو پتھر، آنکھ کو خشک اور کانوں کو بہرا بنا دیا ہے۔ معاشرہ بے حسی کی ایسی دلدل میں دھنس چکا ہے جہاں دوسروں کا درد محض ایک خبر، ایک ویڈیو کلپ یا سوشل میڈیا پوسٹ بن کر رہ گیا ہے۔ اور سوال یہ ہے کہ کیا بے حسی صرف ایک رویہ ہے؟ نہیں! بے حسی ایک جرم ہے، اور شاید سب سے بڑا جرم۔
ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں ظلم ہوتا ہے، لوگ مرتے ہیں، بچے سڑکوں پر بلکتے ہیں، عورتیں چیختی چلاتی ہیں، بزرگ بے یار و مددگار پڑے ہوتے ہیں… اور ہم محض موبائل کیمرا نکال کر منظر فلمبند کر دیتے ہیں یا کندھے اچکا کر خاموشی سے گزر جاتے ہیں۔ کیا یہ جرم نہیں؟ کسی کو بچانے کے بجائے صرف تماشائی بن جانا، کسی کے زخم پر مرہم رکھنے کے بجائے نظریں چرا لینا، کسی کے حق میں آواز بلند کرنے کے بجائے چپ سادھ لینا – یہ سب جرم ہیں، جن کے مرتکب ہم سب ہیں۔
بے حسی کی یہ روش صرف فرد تک محدود نہیں، اداروں میں، حکومتوں میں، میڈیا میں، ہر جگہ در آئی ہے۔ ایک بچی زیادتی کے بعد قتل کر دی جاتی ہے، کچھ دن اخبارات اور چینلز میں شور مچتا ہے، مگر پھر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ کوئی اصلاح نہیں ہوتی، کوئی نظام نہیں بدلا جاتا۔ وہی وارداتیں دہراتی رہتی ہیں، اور ہم صرف اگلے سانحے کا انتظار کرتے ہیں۔ کیا یہ اجتماعی بے حسی نہیں؟ اور کیا یہ اجتماعی جرم نہیں؟
بے حسی کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔ دل کو ایسا سخت کر دیتی ہے کہ انسان کو اپنے سوا کسی کی فکر نہیں رہتی۔ محبت، ہمدردی، خلوص، ایثار جیسے جذبے دم توڑ دیتے ہیں۔ جب دل احساس سے خالی ہو جائے تو انسانیت دم توڑ دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ انسان کے پاس ہر قسم کی ٹیکنالوجی ہے، ہر سہولت میسر ہے، مگر سکون نہیں، امن نہیں، خوشی نہیں، کیونکہ اس کے اندر انسانیت باقی نہیں رہی۔
بے حسی صرف بے عملی نہیں بلکہ اخلاقی موت ہے۔ جو معاشرے اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں، وہ ترقی کے بلند مینار ضرور کھڑے کر لیتے ہیں، مگر ان کی بنیاد کھوکھلی ہو جاتی ہے۔ اور پھر وہ کسی بھی طوفان کے سامنے ٹک نہیں پاتے۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے تمدن اسی بے حسی کے باعث زوال پذیر ہوئے، جب اہلِ اقتدار نے مظلوموں کی آہ نہ سنی، جب امیر نے غریب کے پیٹ کی بھوک کو نظر انداز کیا، جب اکثریت نے اقلیت کے حقوق پامال کیے۔
تو پھر کیا کیا جائے؟ حل کیا ہے؟ حل یہی ہے کہ ہم اپنے اندر انسانیت کو زندہ کریں۔ دوسروں کے دکھ کو محسوس کرنا سیکھیں۔ ایک بیمار کو دوا، ایک بھوکے کو روٹی، ایک مظلوم کو آواز، اور ایک بے سہارا کو سہارا دیں۔ ہر فرد اگر اپنے دائرے میں کسی ایک انسان کے لیے کچھ کرے تو معاشرے کی فضا بدل سکتی ہے۔ ہمیں بچوں کو محض ریاضی اور سائنس نہیں، بلکہ احساس، ہمدردی اور ذمہ داری سکھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں مساجد، مدرسوں، اسکولوں اور گھروں میں یہ پیغام دینا ہوگا کہ خاموشی جرم ہے، تماشائی بن جانا جرم ہے، اور بے حسی سب سے بڑا گناہ ہے۔
آخر میں، یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اگر معاشرہ جینے کے قابل بنانا ہے، تو ہمیں بے حسی کے خلاف آواز بلند کرنی ہوگی۔ ہمیں صرف زندہ انسان نہیں، “محسوس کرنے والے انسان” بننا ہوگا۔ کیونکہ جو دوسروں کے لیے نہیں جیتا، وہ درحقیقت مر چکا ہوتا ہے۔ اور جو درد کے وقت خاموش رہے، وہ مجرم ہے، چاہے وہ قانون کے کٹہرے میں آئے یا نہ آئے۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International