ثناء بانو بنت وقار احمد
(بی ایڈ ، ایم اے سائیکالوجی، ایم اے انگریزی، ایم اے اردو)
نواب پورہ ، اورنگ آباد
بلکتے بھوک سے چہرے کبھی ماہتاب نہیں رہتے
اگر پانی ملے نہ پھول بھی شاداب نہیں رہتے
غریبی چھین لیتی ہے حُسن اخلاق کی دولت
جہاں افلاس ہو تہذیب کے آداب نہیں رہتے
حقیقی آزادی کیا ہے : آزادی ایک بنیادی حق ہے ۔ انسان اخلاقی اقدار پر عمل کر کے ہی آزادی حاصل کرسکتا ہے۔
اخلاق کا اچھا ہونا اللہ سے محبت کی دلیل ہے۔
انسان کی پہچان اچھا لباس نہیں بلکہ اچھا اخلاق اور اس کا ایمان ہے۔
رسولؐ نے ارشاد فرمایا : جو چیز سب سے زیادہ جنت میں داخل کرے گی وہ اللہ تعالیٰ کا ڈر اور اچھا اخلاق ہے۔
کامل مومن وہ ہے جس کے اخلاق بہتر ہے۔
خوبصورت عمل انسان کی شخصیت بدل دیتا ہے اور خوبصورت اخلاق انسان کی زندگی۔
دولت اور عہدے انسان کو عارضی طور پر بڑا کرتے ہیں لیکن انسانیت اور اچھا اخلاق انسان کو ہمیشہ بلند کرتا ہے۔ اخلاق انسانیت کا زیور ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت و تکریم سے نوازا۔ عزت و تکریم کے مظاہر میں حسن اخلاق، عدل و انصاف ، شرم و حیا ، عفت و عصمت اور لباس و حجاب سب شامل ہیں۔ لباس و حجاب انسان کے معزز و مکرم ہونے کی علامت ہے۔ انسان کی طرح انسانی معاشرے کو بھی عزت و تکریم عطا کی گئی ہے۔
وَلَقَدْ کرمْنَا بَنِی اَدَمَہ وَ حَملْنَا ھُمہ فِی الْبَرِّ والبَحْرِ وَرَزقِنَا ھُمہ مِنَ الطّیّبَاتِ وَ فَضَّلنَا ھُمْہ عَلَی کثیِرٍ خَلَقْنَا تفضیلاً (الاسراء : ۷۰)
’’اور ہم نے آدمؑ کی اولاد کو خوب عزت بخشی اور ان کی خشکی اور تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی۔‘‘
حیا انسانی معاشرے کی محافظ ہے۔ ایک ایسے معاشرے کا تصور کریں جس میں شرم و حیا کی عمل داری ہو۔ وہ معاشرہ انسانوں کے لئے پُرامن اور عافیت بخش ہوگا۔ اِس میں انسانوں کی عزت اور جان و مال سب محفوظ ہوگا۔ قرآن مجید کے بیانات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہر طرح کے فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے۔ قرآن مجید بے حیائی کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔
وَلَا تَقْرَبْوالْفَوَاحِشَ مَاظَھَر مِنْھَا وَمَا بَطَنَ (الانعام : ۱۵۱ ) ’’بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا۔‘‘
اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو فحش کاموں سے دور رہتے ہیں جو بڑے چھوٹے گناہوںاور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی ہے ، نماز بھی فحش باتوں سے روکتی ہے۔
انسانی معاشرے کی مضبوطی اور پائیداری کے لئے اخلاقی قدریں نہایت ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم میں بھیجا جو بے حیائی اور بدکاری کی ساری حدیں پار کرچکی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا نقطہ ارتکاز اس بدکار قوم کا حتمی انحراف تھا۔ حضرت لوطؑ نے برسہابرس ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر حضرت لوطؑ کے اس خاص دعوتی اور اصلاحی مشن کا ذکر کیا ہے۔
دین اسلام کا تصورِ اخلاق بہت واضح ہے۔ اخلاق کی تکمیل کو اللہ کے رسولؐ نے اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا۔ حیا کو ایمان کی شاخ بتایا، زنا کو فاحشہ قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ جب کوئی زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا ہے۔
اسلام میں لباس اور پردے کے سلسلے میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔لباس اور پردہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ تمام جانداروں میں صرف انسان ہے جو لباس کا استعمال کرتا ہے، انسان کا بے لباس ہوجانا بے حیائی ہے۔
یَابَنِی اَدَمَہ قَدْ انْزلَنَا عَلَیْکُمْہ لِبَاسًا یُوَارِی سَواتِکمہ وَرِیثًا وَلِبَاسْ التَّقْدیَ ذَکِکَ خَیْرٌ ذلِکَ مِنْ آیَاتِ اللّٰہِ لَعَلَّھُمْہ یَذَّکَّروُنَ (الاعراف:۲۶)
’’ائے آدم کی اولاد ہم نے تم پرلباس نازل کیا ہے کہ تمہارے جسم کی شرم گاہوں کو چھپانے اور تمہارے لئے زینت کا ذریعہ بھی اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں۔‘‘
لباس اور پردہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ انسان اپنی عفت مآبی کے لئے فکرمند رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو وقار و تکریم سے نوازا۔
عفت و عصمت کی حفاظت کے لئے ایک زبردست قابل تقلید نمونہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے۔ نوجوانی کی جس عمر میں نوجوان خودبخود نفس کی خواہشات کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور گناہ کے مواقع تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ حضرت یوسفؑ گناہ کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے۔ یوسفؑ کی عفت پسندی ہر دور کے جوانوں کے لئے قابل تقلید ہے۔ عفت پسند مردوں کے لئے حضرت یوسف علیہ السلام بہترین نمونہ ہیں تو عفت پسند خواتین کے لئے حضرت مریمؑ بہترین نمونہ ہیں۔ قرآن میں بار بار یہ بات اجاگر کی گئی ہیکہ وہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والی تھیں۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی بدولت انھیں بہت اونچا رتبہ عطا کیا اور ان کی صفت کو قرآن مجید میں بار بار ذکر کے قیامت تک کے لئے بہترین نمونہ بنا دیا۔
اللہ نے حضرت مریمؑ کی جو عزت افزائی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہر مومن لڑکی کے دل میں یہ عزم پیدا ہونا چاہئے کہ وہ بھی زندگی بھر اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرے گی۔
قرآن و سنت کی تمام اخلاقی ہدایات کاجائزہ لیں تو ہم سمجھ جائیں گے کہ حلال کے مقابلے میں حرام بہت کم ہیں۔ اسلام کی اخلاقی ہدایات محض ممانعت نہیں بلکہ ایک جامع فریم ورک کے طور پر کام کرتی ہے جس کا مقصد افراد، خاندانوں اور معاشرے کو بڑے پیمانے پر فتنوں اور ان کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات سے دور رکھنا ہے۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : بے شک حیا و عفت ایمان کی ایک شاخ ہے۔ حیا کا انجام بھلائی ہی ہے اِس کے سوا کچھ نہیں۔ غیراخلاقی کام کرنے سے بھی بدتر اس کی تشہیر کا عمل ہے۔ اسلام نے اس کی سختی سے ممانعت کی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی فرد کی حقیقی آزادی گناہ کی غلامی سے آزادی ہے۔ ہمیں اپنے اندر اپنے خالق کی مقرر کردہ اخلاقی اقدار کے مطابق عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرنی چاہئے۔
پہلی نظر میں ’’بااخلاق‘‘ ہونا ہی آزادی ہے۔ حقیقی آزادی کے حصول کے لئے اخلاقی زندگی گزارنا ضروری ہے۔ اخلاق آزادی کی بنیاد ہے کیونکہ یہ افراد کو ایسے انتخاب کرنے کی اجازت دیتا ہے جو دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر خوشی اور امن کا بادشاہ بنے۔
قرآن و سنت کی طرف سے دی گئی اخلاقی ہدایات اور اصول یہ ہیں کہ ہر ایک کو نتیجہ خیز زندگی گزارنے کی آزادی کو یقینی بنایا جائے۔ اسلام جس چیز کی ترویج کرتاہے وہ ایک ایسا نظام ہے جو افراد اور معاشرے کے مفادات کو ہم آہنگ کرتا ہے اور بنیادی انسانی حقوق میں کوئی فرق نہیں کرتا۔
صرف اللہ کی ہدایت کے ذریعے ہی ان متضاد و متعارض مفادات کو مربوط و ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔
اللہ کے احکامات مجموعی طور پر اس کی مخلوق کی فلاح و بہبود کے لئے ہے نہ کہ کسی ایک کے ذاتی مفاد کے حق میں۔
حیا انسانی معاشرے کی محافظ جس میں شرم و حیا کی عمل داری ہو وہ معاشرہ انسانوں کے لئے پُرامن اور عافیت بخش ہوگا۔ اس میں انسانوں کی عزت اور جان و مال سب محفوظ ہوگا۔ کسی عورت اور کسی بچے کو نہ گھر میں کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ گھر کے باہر کوئی ڈر ہوگا۔ اس کے مقابلے میں اس معاشرے کا تصور کریں جہاں شرم و حیا مفقود ہوچکی ہو۔ خواہشات کا راج ہو ، بے راہ روی اور آوارگی کا چلن ہو، اچھے چلن اور بدچلنی کافرق مٹ چکا ہو ، وہاں کسی کی عزت اور کسی کا جان و مال کیسے محفوظ رہ سکے گا۔
قرآن مجید میں فاحشہ کو بہت بڑی برائی بتایا گیا۔ قرآن مجید میں اِس قوم کا ذکر باربار کیا گیا جو فحاشی کے جرم میں مبتلا ہوئی اور نہایت سخت عذاب کے ذریعے ہلاک کردی گئی۔ حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کی اصلاح کی پوری کوشش کی۔
قرآن مجید میں چھ قوموں کے عذاب کا تفصیل سے باربار ذکر آیا ہے ، ان قوموں میں بالترتیب حضرات نوحؑ ، ہودؑ ، صالحؑ ، لوطؑ ، شعیبؑ اور موسیٰ علیہ السلام بھیجے گئے۔ یہ تمام قومیں عقیدے کے بگاڑ کے ساتھ سنگین قسم کے اخلاقی فساد میں ملوث تھیں۔ اللہ نے اِن کے پاس رسول بھیجے جو ان کے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔
دورِ حاضر میں بے حیائی کے علم برداروں کی اپروچ یہ ہے کہ وہ برائی کا اشتہار کرتے ہیں۔ بدکاری اور زیادہ کے درمیان فرق بتاکر بدکاری کو فروغ دینا اور زیادتی پر واویلا مچانا، دنیا کو دھوکہ دینا ہے۔ بے حیائی و بدکاری اور ظلم و زیادتی کے بیچ گہرا رشتہ ہے۔ جس سماج میں بدکاری عام ہوتی ہے وہاں زیادہ کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ جس سماج میں شرم و حیا کا راج ہوتا ہے اور نکاح کے مضبوط ادارے اور دائرے میں رہتے ہوئے جنسی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے وہاں زیادتی کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ حضرت لوطؑ کی قوم میں بدکاری عام تھی، اس کے ساتھ ہی وہاں زیادتی بھی عام ہوگئی تھی۔ جب فرشتے انسانوں کے روپ میں حضرت لوطؑ کے گھر پہنچے تو ان کی قوم کے لوگ زیادتی پر اُتر آئے۔
جس سماج میں رضامندی کے ساتھ زنا عام اور فحاشی رائج ہوجاتی ہے اس سماج میں جنسی ہراسانی اور زنابالجبر بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نفس کو ڈھیل دے دی جاتی ہے اور نفس پرستی کا دور دورہ ہوتا ہے ، شرم و حیا مانع ہوتی ہے اور نہ خوفِ خدا رکاوٹ بنتا ہے تو انسان کبھی دولت کی لالچ اور کبھی طاقت کی زورزبردستی سے بھی اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتاہے۔
اسلامی اخلاقی ہدایات آزمانے اور غلطی کو جانچنے کا نتیجہ نہیں ہیں بلکہ خالق کی طرف سے مقرر کی گئی ہیں جو انسان کی فطرت اور تقاضوں کو کسی اور سے بہتر جانتا ہے۔ اگرچہ انسان کی تخلیق کردہ اخلاقی اقدار وقت کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن اسلامی تعلیمات مستقل رہتی ہے اور اخلاق میں آزادی کے تصور سے ہم آہنگ ہیں۔ ’’جیو اور جینے دو‘‘ ان کی بنیاد ہے ان کے عملی طور پر نافذکردہ نمونے سنت یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اقوال میں دیکھے جاسکتے ہیں۔
انسانی معاشرے کی مضبوطی کے لئے اخلاقی قدریں نہایت ضروری ہے۔ اخلاق تعمیر کے راستے کھولتا ہے اور بداخلاقی تخریب کی طرف لے جاتی ہے۔ اخلاق کے راستے انسان سرخرو اور سربلند ہوتا ہے۔
مومن کی زندگی میں حیا ایک لازمی جزو ہے۔
شرم و حیا کی اہمیت : نبی کریمؐ نے فرمایا کہ ہر مذہب کے ماننے والوں کی کچھ خاص صفات و عادات ہوتی ہیں جو ان کی پہچان ہوتی ہے۔ اسلام کی خاص صفت و عادت جو مسلمانوں کی امتیازی شان ہونی چاہئے ، وہ شرم و حیا کی عادت ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اَلْحَیَایُٔ لَایاْتِی اِلَّا بخیر ’’حیا سے فقط بھلائی ہی حاصل ہوتی ہے۔‘‘ وَقَالَ صلی اللّٰہ علیہ و سلم : اَلحَیَایْ خیْرِ کلہ ’’حیا تمام کی تمام خیر ہے۔‘‘
حیا ایمان کا حصہ بنتی ہے کہ حیا نیک اعمال پر ابھارنے اور نافرمانیوں سے رکنے کا کام دیتی ہے۔ انسان میں حیا تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے۔ اللہ سے حیا، لوگوں سے حیا، اپنے آپ سے حیا۔ ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔‘‘
حیا جس چیزمیں بھی ہوتی ہے اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔ افعال ، اخلاق، اقوال۔ خیالات میں تصورات میں حیا ، بات چیت اور گفتگو میں حیا ، عبادت میں حیا ، معاملات میں حیا۔ لباس زیب تن کرنے میں حیا، جنسی بے راہ روی اور فحاشی کے مقابلے میں شرم و حیا۔
حیا : ایمان کی ساٹھ سے ستر شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔حیا اور ایمان ہمیشہ اکٹھے رہتے ہیں جب ان میں کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خودبخود اُٹھ جاتا ہے۔ بے حیائی جس چیزمیں بھی ہوتی ہے اسے عیب دار بنا دیتی ہے اورحیا جس شئے میں بھی ہوتی ہے اسے زینت دیتی ہے۔
جو قوم بے حیائی کی طرف قدم بڑھائے گی اللہ اسے مصیبتوں میں مبتلا کردے گا۔ (حضرت ابوبکرصدیقؓ)
Messenger of Allahﷺ said :
The heaviest thing which will be put on the believers scale (on the day of resurection) Will be good morals
Leave a Reply