عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم سب دوست چائے کے ہوٹل پر جمع تھے ۔ یہ ہمارا روز مرہ کا معمول تھا ، کہ سارے دن کے تھکے ہارے دوست چائے کی دکان پر جمع ہو کر وقت گزارتے تھے ۔ لیکن اب یہاں بھی گفتگو میں خوشی سے زیادہ شکوے بڑھتے جا رہے تھے ، ہر کوئی موجودہ حالات سے تنگ تھا اور شکوہ کناں تھا ، کہ مہنگائی دیکھو کہاں پہنچ گئی ہے ، حالات دگرگوں ہوتے جا رہے ہیں ، حکومت کیا کر رہی ہے ۔ اب یہ گفتگو ہی روز کا معمول بن چکی تھی ۔
آج بھی ہم سب دوست یہی گفتگو کر رہے تھے ، کہ ایک بزرگ جن کی عمر 70 سال کے قریب ہو گی اور جو ہماری باتیں بہت غور سے سن رہے تھے ، کہنے لگے بیٹا اگر برا نہ لگے تو میں آپ سب سے کچھ پوچھ سکتا ہوں ۔ ہم سب دوستوں نے ان کو دیکھا اور ازراہ مروت کہہ دیا کہ جی بابا جی فرمائیے ۔
بابا جی نے کہا میں صرف چند سوالات پوچھوں گا اور آپ لوگوں نے ان کا جواب دینا ہے، پھر انہوں نے ہم سب کو دیکھتے ہوئے پوچھا بیٹا آپ لوگوں کے پاس موٹر سائیکل ہے؟
ہم سب دوستوں کا جواب اثبات میں تھا کیوں کہ اب موٹر سائیکل ایک عام سی سواری ہے اور زیادہ تر لوگوں کی قوت خرید میں ہے۔
پھر بابا جی نے پوچھا گھر میں ٹی وی ہے ؟ یہ جواب بھی اثبات میں تھا کیونکہ یہ بھی اب اکثریت کے گھروں کی زینت بن چکا ہے۔
پھر بابا گویا ہوئے مکانات بن رہے ہیں ، گھروں میں کپڑے جمع کرنے کے لئے الماریاں بنائی جا رہی ہیں ، اخراجات کی فہرست بڑھتی جا رہی ہے ۔ کیا میں غلط کہہ رہا ہوں بابا نے دریافت کیا ؟ ہم خاموشی سے سن رہے تھے کہ کسی بات کا انکار ممکن نہیں تھا ۔
اب بابا نے کہنا شروع کیا ، کبھی اپنے بزرگوں سے پوچھا ہے کہ کن حالات میں ان کا گزارا ہوتا تھا ؟؟ موٹرسائیکل تو دور سائیکل تک نہیں تھی ۔ تانگے پر سفر ہوتا تھا ، اب تو تانگہ نظر بھی نہیں آتا۔ محلے میں ایک گھر میں ریڈیو بھی ہوتا تو سارا محلہ وہاں جمع ہو کر پروگرام سنا کرتا ، اور یہی حال ٹی وی کا تھا کہ جس کے گھر ٹی وی ہوتا وہ سارے محلے کا ہوتا۔ کپڑے عید پر بنتے تھے اور سارا سال چلتے تھے ، پھر الماریوں کی ضرورت کہاں ہوتی کہ جمع کیے جاسکتے۔ محلے میں کوئی بیمار ہوتا تو سارے محلے کو علم ہوتا تھا ، اور سب تیمارداری میں لگے ہوتے ، کسی گھر میں اچھا سالن بنتا تو پہلا حق پڑوسی کا تصور ہوتا تھا ۔ تب سکون زیادہ تھا سہولتیں کم تھیں پتہ ہے کیوں ؟
ہم بابا جی کا منہ دیکھنے لگے اور بابا جی بولے کیونکہ تب نیتیں ٹھیک تھیں، تب میرا تیرا کم تھا ۔ میرا سب کا تھا اور سب کا میرا بھی تھا ۔ لیکن اب سہولتیں زیادہ اور سکون کم ہے ، کیونکہ میرا صرف میرا ہے اور سب کا صرف ان سب کا ہے ۔ پہلے تھوڑے میں قناعت تھی برکت تھی اور اب زیادہ میں بے برکتی ہے ۔ بابا نے ہماری طرف دیکھا اور اپنی چائے کے پیسے دیتے ہوئے روانہ ہو گئے ، اور ہم سوچنے لگے کہ ان تمام پریشانیوں کے ذمہ دار تو ہم خود زیادہ ہیں ، کہ ہم ایسے مایا جال میں پھنس گئے ہیں جس کا کوئی اختتام ہے تو قبر کی گہرائی ہے ۔ اب اگر ہمیں سکون چاہئیے تو ہمیں دل کشادہ کرنے پڑیں گے ۔ پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنے پڑیں گے ، میری سہولت پر کچھ حق اوروں کا بھی ہے وہ بھی دینا پڑے گا ، تب ہی یہ بے سکونی ختم ہو سکے گی ۔
Leave a Reply