(قیصر مسعود،دوحہ قطر)
“فرتاش صاحب! کیا حال ہے؟”فون پر ایک لمبی گھنٹی بجنے کے بعد وہ بولا” ٹھیک ہوں الحمدللہ۔تم کیسے ہو؟”اس کی آواز سن کر مجھے عجیب سا محسوس ہونے لگا۔میں سوچنے لگا کہ اتنا بے تکلف انسان اتنی تکلیف سے کیوں بول رہا ہے؟اس کا سانس قدرے اکھڑا ہوا تھا اور ہلکی سی کھانسی کی آواز بھی محسوس ہو رہی تھی۔کورونا کے ماحول میں اس طرح کی اکھڑی اکھڑی سی آواز سن کر ہزار طرح کے خدشے دل و دماغ پر دستک دینے لگتے ہیں۔میں نے متفکرانہ لہجے میں اس سے کہا کہ اپنا چیک اپ کرواؤ،کہیں تمہیں کورونا ہی نہ ہو گیا ہو۔کہنے لگا”نہیں یار! موسم بدل رہا ہے،مجھے ایسے موسم میں الرجی،زکام وغیرہ ہو جایا کرتا ہے۔یخنی ،قہوہ وغیرہ پی رہا ہوں۔ان شا ء اللہ دو تین دن میں ٹھیک ہو جاؤں گا”۔میں نے یہ دیکھتے ہوئے کہ وہ وہ بولنے میں دشواری محسوس کر رہا ہے،اسے صحت کی دعا دیتے ہوئے فون بند کر دیا۔دو تین دن گزر گئے۔میں ان دنوں پاکستان میں تھا لہذا مصروفیت کی وجہ سے اس کی خیر خبر لینا بھول گیا۔اگلے چند دن میں،میں دوحہ واپس آ گیا۔یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتا رہا کہ مارچ کا مہینا ہے۔شہتوت کے درختوں پر نئی شاخیں پھوٹنے کے دن ہیں ۔ہو سکتا ہے اسے پولن الرجی ہو گئی ہو جس کی وجہ سے وہ الرجی اور زکام کا شکار ہو گیا ہوگا۔دوحہ پہنچ کر دو دن مزید گزر گئے۔سوچ ہی رہا تھا کہ فرتاش کو مختصر سی کال کر کے اس کی خیریت دریافت کر لوں کہ اچانک فیس بک پر نظر پڑی۔ہمارے اور اس کے مشترکہ دوست زعیم رشید کی وال پر صرف یہ جملہ لکھا ہوا دیکھا” فرتاش مصنوعی سانسوں پر ہیں،دعا کریں”۔اف اللہ! یہ کیا ہے؟یہ جملہ پڑھتے ہی میری زبان سے یہ جملہ بے ساختہ طور پر نکل گیا۔فرتاش کی صحت کے حوالے سے میرے خدشات مزید بڑھ گئے۔فوراً زعیم رشید کو کال ملائی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔اس کے ایک اور قریبی عزیز سے رابطہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کورونا کی شدید علامات کی وجہ سے آکسیجن پر ہے لیکن الحمدللہ اب اس کی طبیعت کافی بہتر ہے۔دوسرے دن زعیم رشید نے بھی اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ فرتاش صاحب کی طبیعت اب بہت بہتر ہے۔ڈاکٹر نے کہا ہے کہ جلد ہی آکسیجن اتار دیں گے۔میں نے یہ خبر پڑھ کر سکھ کا سانس لیا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کہ کہ وہ فرتاش کو جلد صحت کاملہ سے نوازے۔
دوسرے دن صبح جاگنے پر اچانک خبر ملی کہ فرتاش سید کا انتقال ہو گیا ہے۔مجھ پر یہ خبر ایک پہاڑ بن کر گری۔یہ سوچ کر کہ کسی نے افواہ ہی نہ اڑا دی ہو،میں نے پاکستان میں موجود اس کے قریبی دوستوں سے رابطہ کیا۔افسوس صد افسوس کہ وہ خبر افواہ نہیں بلکہ حقیقت تھی۔میں فوراً جیسے سکتے کی حالت میں آگیا۔زمیں جیسے ٹھہر سی گئی ہو۔آنسو تھے کے بس بہے چلے جاتے تھے۔کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیا کیا جائے۔اپنے آپ کو کیسے دلاسہ دیا جائے،کس سے گلے مل کر چیخا جائے ،کس سے دکھ درد بانٹا جائے۔دنیا کی بے ثباتی کے رنگ رہ رہ کر آنکھوں کے گرد دھند کا ایک دائرہ تشکیل دے رہے تھے۔فرتاش کی قربت میں گزرے سات سالوں کاایک ایک مہینا بلکہ ایک ایک دن دماغ پر ہتھوڑے برسانے لگا۔یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے فرتاش میرے سامنے کھڑا ہے اور اپنی مخصوص اونچی آواز میں مجھے نصیحت کر رہا ہے بلکہ ڈانٹ رہا ہے ۔ “مت رو پگلے،مت رو۔”۔میں ادھر ہی ہوں۔صرف دنیا سے ہجرت کی ہے۔دوسرے عالم میں ہوں۔اسی کائنات کا حصہ ہوں۔حیات بعد از موت کا نظریہ میرے ذہن میں تسلی کی ہوائیں چلانے لگا۔میں سوچنے لگا کہ مجھے بھی تو سفر کرنا ہے۔مجھے بھی تو ہجرت کرنی ہے۔تھوڑا انتظار کر لیتے ہیں۔فرتاش سے عالم بالا کی کسی تقریب میں ملاقات ہوگی تو اس سے خوب شکوہ کروں گا کہ اتنی جلدی کیوں بھاگ آیا تھا مجھے بتائے بغیر؟۔
فرتاش نے اس دنیا میں کم و بیش 53 برس ایک بے چین روح کی طرح گزارے۔میں اسے بے چین روح کیوں کہتا ہوں؟اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے کسی پل چین نہیں پڑتا تھا۔وہ ہر وقت بے چینی،بے قراری اور الجھن کی عجیب سی کیفیت میں رہتا تھا۔ایک ایسا شخص تھا جو کسی چیز سے،کسی کام سے مطمئن نہیں ہوتا۔اس کی شخصیت کے لیے سیماب صفت کا لفظ بہت درست بیٹھتا ہے۔
اس کی شخصیت کی یہی خوبیاں یا خامیاں اسے ہر وقت متحرک رکھنے کے لیے مہمیز کا کام کرتی تھیں۔یہی بے چینی ،بے قراری اور بے اطمینانی اسے کسی ایک جگہ قیام نہیں کرنے دیتی تھی۔وہ ایک شہر میں زیادہ عرصے تک رہنا بھی پسند نہیں کرتا تھا چنانچہ وہ روزگار کے سلسلے میں کبھی پنڈی تو کبھی کراچی،کبھی لاہور تو کبھی دوحہ جا پہنچتا۔کئی بار ایسا ہوا کہ وہ دوحہ سے مستقل طور پر پاکستان چلا جاتا اور دو چار سال بعد پھر لوٹ آتا۔آپ حیران ہوں گے کہ چند برس پیشتر پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ مکمل کرنے کے بعد جب وہ بظاہر مستقل طور پر پاکستان چلا گیا تو چند ہی ماہ بعد بے چینی کا اظہار کرنے لگا۔ایک یونیورسٹی جوائن کی تو جلد ہی اس سے اکتا کر دوسری یونیورسٹی میں ملازمت اختیار کر لی۔یعنی لاہور جیسے زندہ دل شہر میں بھی اسے ایک علاقے میں مستقل قیام کرنا پسند نہیں آتا تھا یہاں تک کہ انتقال سے چند ماہ پہلے دوبارہ دوحہ آنے کی خواہش کا اظہار کیا کرتا۔اگر عمر مہلت دیتی تو شائد آج دہ پاکستان انٹر نیشنل اسکول میں دوبارہ میرا رفیقِ کار ہوتا۔
بے چینی اور عدم اطمینان کی یہی کیفیت اس کی شاعری میں بھی نظرآتی ہے۔وہ کبھی اپنے شعر سے بھی مطمئن نہیں ہوتا تھا چنانچہ اپنی غزلوں کے اشعار کو بار بار تبدیل کرتا رہتا تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس کے مجموعہء کلام” حاشیہ” کی غزلوں کو دیکھا جائے تو پچھلے دس سالوں میں ہر غزل کے چیدہ چیدہ مصرعوں میں واضح تبدیلی نظر آتی ہے۔اس کی بے چین اور مضطرب شخصیت کو دیکھ کر واضح طور پر نظرآتا تھا کہ وہ کچھ نیا کر گزرنے کی دھن میں ہے۔
شعر و ادب کا میدان ہو یا درس و تدریس کا شعبہ،وہ ہر کام میں انتہائی محنت اور جد و جہد کا قائل تھا۔تدریس کے دوران پڑھائے گئے اسباق اور لیکچرز سے بھی مطمئن نہیں ہوتا تھا۔کلاس میں پڑھائے گئے اسباق کو کئی بار دیکھتا تھا کہ کہیں کچھ رہ تو نہیں گیا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ کسی موضوع کی تفصیل و تشریح کے دوران کوئی جھول یاکمی رہ گئی ہو؟۔اشعار کے اوزان اور مفاہیم کے حوالے سے چھوٹی سے چھوٹی خامی بھی اس کے نزدیک بڑی خامی قرار پاتی تھی۔
شاعری میں وہ فنی رعائتیں جو عام طورپر جائز قرار دی جاتی ہیں،اس کے نزدیک وہ بھی ممنوع قرار پاتی تھیں۔ہم جب بھی مل بیٹھتے ،شعری رموز اور عروض پر کھل کر گفتگو کرتے۔دورانِ گفتگو صاف محسوس ہوتا تھا کہ اس کا ذہن تنقیدی شعور سے کس قدر لبریز ہے۔شعر اپنا ہو یا کسی اور کا،اس میں معمولی سی کمی کوتاہی بھی اس کے نزدیک قابلِ گرفت عمل ہے۔
فطری بے چینی اور اضطراب کی وجہ سے وہ اپنی زندگی سے بھی غیر مطمئن تھا۔وہ اکثر اس بات پر کُڑھتا رہتا تھا کہ کئی اہم کام کرنا باقی ہیں اور عمر ہے کہ گزرتی ہی چلی جارہی ہے ۔شاید یہی وجہ تھی کہ اس نے دنیا سے رخصتی سے چند برس پیشتر بہت سے ادھورے علمی و ادبی کام انتہائی سرعت کے ساتھ مکمل کر لیے۔شاید اسے اس بات کا احساس ہو گیا تھا کہ دنیا کی بزم میں اس کے قیام کی مدت بہت کم رہ گئی ہے۔اب وہ اس دنیا میں نہیں لیکن اتنی بلند تر آواز بھلا خاموش کیسے ہو سکتی ہے۔مجھے لگتا ہے کہ وہ زیر زمین بھی خوب متحرک ہوگا اور اپنے مخصوص بلند تر لہجے میں شعر پڑھ رہا ہوگا۔کان لگا کر دیکھنا چاہیے،کیا خبر اس کی دبنگ آواز قبر سے باہر بھی سنائی دے رہی ہو۔
Leave a Reply