تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
رونے کے لیے آنسوؤں کا بہنا ضروری نہیں ہوتا نہ ہی اشکوں کی برسات کا، کبھی کبھی خشک آنکھوں سے رونے کا مزہ بھی اشکوں کی برسات سے کہیں زیادہ ہوتا ہے، کبھی لیا ہے مزہ ایسے خشک آنکھوں سے رونے کا؟ جب غم کے پہاڑ کی منوں وزنی سل سینے پہ دھری ہوی ہوتی ہے،
جب نہ چاہتے ہوئے بھی جیون کی گاڑی کو دھکیلنا ہی پڑتا ہے تو ایسا جیون، جیون تھوڑی ہوتا ہے، ایک طرح کی سزا ہی تو ہوتا ہے جسے لوگ نہ چاہتے ہوئے بھی بھگت رہے ہوتے ہیں. کالے پانی کی سزا، ایک نہ ختم ہونے والی بھوک کی سزا، ننگے پاوں ٹوٹے ہوے کانچ پہ چلنے کی سزا، یا بھڑکتے شعلوں پہ برہنہ پا رقص کرنے کی سزا، پیٹ کی داڑھی میں ہر پل اگتی ہوی داڑھی کے ریشوں میں پل پل اضافہ ہونے والے بالوں کی سزا، خواہشوں سے یاد آیا کہ یہ خواہشیں بھی ناں کتنا بڑا روگ ہوتی ہیں، کتنا بڑا عذاب ہوتی ہیں، انسان کی ہستی ان خواہشات کے بھنبڑ بھونسلے کو پورا کرتے کرتے ہلکان ہو جاتی ہے، برباد ہو جاتی ہے مگر خواہشات کے پیٹ کا دوزخ اتنا پاپی ہے کہ بھرتا ہی نہیں.
تبسّم چھ بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھی، پانچ فٹ چھ انچ کا نکلتا ہوا قد، بڑی بڑی حوروں جیسی آنکھیں، چمکتا ہوا سرخ سپید رنگ، کسی قاتل ادا کے جیسی کھڑی ہوی ستواں ناک اور اس ناک میں لشکارے مارتا ہوا ایک نگ والا ہیرے کا کوکا، بال بل کھاتے، لہراتے، مسکاتے اور بہت سی کہانیاں سناتے آپس میں گتھم گتھا، تبسم کو کسی الف لیلوی کردار جیسا ہی دکھاتے تھے،تبسّم دکھنے میں تو حسن بے بہا تھی ہے جب چلتی تو لگتا کاینات تھم گءی ہے جب ہنستی تو لگتا جھرنے رواں ہو گیے ہیں، جب بات کرتی تو لگتا رب کاینات کی مدح سرائی شروع ہو گءی ہے، اس کے پاس سواے، صبر، محنت اور محبت کے کچھ بھی نہ تھا، اس کے چمکیلے دانت اس کی مسکراہٹ کو بالکل مدھو بالا جیسا رنگ دینے میں ذرا بھی کنجوسی سے کام نہ لیتے تھے اللہ جانے، اللہ کیوں کچھ لوگوں کو اتنا خاص بناتا ہے کہ وہ خواہ مخواہ ہی دنیا کی نظروں میں آجاتے ہیں اور پھر کہیں نہ کہیں انھیں کسی نہ کسی حاسد کی نظر اپنا شکار کر ہی جاتی ہے، ایسا ہی کچھ شوخ و چنچل اور سشیل تبسم کے ساتھ بھی ہوا، شکل صورت کے ساتھ ساتھ تبسم سگھڑ بھی بلا کی تھی اس کے ہاتھ جس شے کو لگ جاتے وہ چیخ چیخ کر اعلان کرتی کہ اسے تبسّم کے ہاتھوں نے چھو لیا ہے، طبیعت میں نفاست، اور ذہانت تبسم کی اضافی خوبیاں تھیں، سگھڑاپے کے ساتھ ساتھ تبسّم ڈاکٹر بھی بن گءی اور فاینل اییر کے ایگزامز کے فوراً بعد ی تبسم کی اپنے تایا زاد سے شادی ہو گءی، پرانے وقتوں میں رشتے کرتے وقت صرف شرافت اور تعلیم ہی کو دیکھا جاتا تھا یہ گاڑیاں، بنگلے اور برانڈڈ فیشن بعد کی اور موجودہ زمانے کی پیداوار ہیں. خیر جس تایا زاد سے تبسّم کی شادی ہوئی وہ تھا تو کیمیکل انجینیر، مگر شکل صورت معمولی تھی، کم ازکم تبسم کے حسن دلربا کے سامنے تو انجینیر صاحب پانی بھرتے ہی دکھای دیتے تھے، گہرا سانولا رنگ، چھوٹا ناٹا قد، کول بینگن جیسا منہ، پھینی ناک، اور شخصیت میں رعب داب نام کا بھی نہ تھا، اچھی خاصی خوب صورت بیوی کہیں ہاتھوں سے نکل نہ جاےتو پہلا ستم ڈاکٹر صاحبہ پہ شوہر نامدار کی طرف سے یہ ڈھایا گیا کہ انھیں نوکری ہی نہ کرنے دی گءی،ایم بی..بی ایس کی ڈگری گءی بھاڑ میں، انھوں نے اچھی خاصی میڈیکل کی ڈاکٹر کی نوکری پہ پابندی لگا کے گھر کی آیا اور بچوں کی ٹیوٹر بنا چھوڑااور تو اور قرآن مجید پڑھانے کی ذمہ داری بھی تبسّم کے کندھوں پر ڈال دی اس ناہجاز، کم شکل، پنج وقت کے نمازی، پرہیز گار، احساس کمتری کے مارے ہوے کیمیکل انجینیر کو اس کی سرکاری استانی ماں اور بہنوں نے یہ پٹی، دولہن کے آتے ہی پڑھا دی کہ تمہاری بیوی ہے کافی اچھی شخصیت کی مالک تو اسے ہوش نہ آنے دینا اور اس عقل کے اندھے نے اپنی ہی بیوی کی قابلیت کا گلا گھونٹ دیا ہاں اب جب تبسم کی شبانہ روز محنت سے چاروں بچے ڈاکٹر بن چکے ہیں اور تبسّم گوڈے، گٹوں کے درد اور کءی دوسری بیماریوں کا شکار ہو چکی ہے اور پورے گھر میں تبسم کے خشک آنسوؤں نے مکمل طور پہ سوگ اوڑھ لیا ہے تو میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس عقل کے اندھے کیمیکل انجینیر سے صرف اتنا پوچھوں کہ زندگی تو ایک ہی دفعہ ملتی ہے تم کیسے مسلمان ہو کہ تم نے ایک پڑھی لکھی عورت کے خوابوں کو ملیا میٹ کر دیا صرف اپنی مردانگی کی بنا پہ اور تمہیں شرم نہ آی پھر اپنی ساری آل اولاد کو چاو سے بلکہ فرمایش سے ڈاکٹر بنوایا کیا یہی سکھاتا ہے تمہارا دین اور ضمیر، اب آپ سوال کریں گے کہ میں کون ہوتی ہوں ایک کیمیکل انجینیر سے اس کی بیوی کے بارے میں ایسے ذاتی نوعیت کے سوال کرنے والی اور کیمیکل انجینئر کو کوسنے دینے والی. تو میں اس بدقسمت تبسم کی ماں ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ پاک دنیا کی تمام تبسموں کو منصف، اہل علم اور با شعور شوہر اور سسرالی عطا فرمائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendrpunnam@gmail.com
Leave a Reply