rki.news
“نام نہاد دانشور اور ادب دشمنی”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج کل بعض خود ساختہ اور نام نہاد دانشور صرف خود کو “عقلی”، “عملی” یا “روشن خیال” ظاہر کرنے کے لیے ادب و شاعری پر تنقید کو فیشن بنا چکے ہیں۔ یہ لوگ فنونِ لطیفہ کو غیر ضروری، غیر حقیقی یا وقت کا ضیاع قرار دے کر اس عظیم ورثے کو کمتر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جو صدیوں سے انسانی تہذیب، فکر، جذبات اور روحانیت کا آئینہ دار رہا ہے۔ادب اور شاعری صرف تفریح نہیں، بلکہ ایک سماجی، فکری، اور روحانی عمل ہے۔ یہ انسان کو اس کی ذات، اس کے جذبات، اس کے کرب، اس کی خوشی، اور اس کے تعلقات کا شعور دیتی ہے۔ ایک حساس شاعر یا ادیب وہ کچھ دیکھ اور محسوس کر سکتا ہے جو محض منطقی ذہن نہیں سمجھ سکتا۔ ادب نے ہمیشہ ظلم، جبر، ناانصافی اور معاشرتی تضادات کے خلاف آواز بلند کی ہے . چاہے وہ غالب کا عہد ہو، فیض کی نظم ہو یا آج کا جدید شاعر۔شاعری ایک ایسا لطیف اور پُراثر فن ہے جو انسانی جذبات، احساسات، تجربات اور مشاہدات کو اس طرح لفظوں کا جامہ پہناتا ہے کہ وہ صرف پڑھنے یا سننے کی چیز نہیں رہتے، بلکہ دل میں اتر کر محسوس کیے جاتے ہیں۔ یہ محض الفاظ کا ترتیب وار مجموعہ نہیں، بلکہ روح کی وہ پکار ہے جو عقل سے نہیں، بلکہ احساس کی گہرائیوں سے جنم لیتی ہے۔ شاعری دل اور کائنات کے درمیان ایک لطیف مکالمہ ہے، جو انسان کو خود اس کی ذات کے قریب لے آتا ہے۔ اس میں ایک ایسا جادو ہے جو لفظوں کو معنی، اور معنی کو تاثیر عطا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شاعری دلوں کو چھو لیتی ہے، روح کو جگا دیتی ہے، اور انسان کو اس کی محسوسات کے اُس پہلو سے روشناس کراتی ہے جس تک منطق یا علم کی رسائی ممکن نہیں۔شاعری محض الفاظ کا خوشنما امتزاج نہیں، بلکہ یہ روح کی وہ صدا ہے جو عقل سے ماورا ہو کر احساس کی گہرائیوں سے ابھرتی ہے۔ یہ وہ لطیف اظہار ہے جس میں لفظ اپنے جامد وجود سے نکل کر معنی کی دنیا میں زندہ ہو جاتے ہیں۔اگر فلسفیانہ انداز میں دیکھا جائے تو شاعری وہ آئینہ ہے جس میں انسان اپنے باطن کو، اپنے کرب کو، اپنے خوابوں اور سوالوں کو دیکھتا ہے۔شاعری دراصل وجود کی صدائے بازگشت ہے ۔ جب کائنات کا سکوت بولنے لگتا ہے اور خاموشی میں ایک چیخ سنائی دیتی ہے، وہی لمحہ شعر میں ڈھلتا ہے۔ یہ وقت اور مکان کی قیود سے آزاد ہو کر ایک ایسا تجربہ بن جاتی ہے جو قاری کے دل و دماغ کو جھنجھوڑ دیتا ہے۔جہاں فلسفہ حقائق کا تجزیہ کرتا ہے، وہیں شاعری ان حقائق کو محسوساتی پیکر عطا کرتی ہے۔ ایک شاعر جب کائنات کو دیکھتا ہے تو وہ اس کے پیچھے چھپے رازوں، تضادات، حسن و الم، اور ازلی سوالات کو ایک رمز میں بیان کرتا ہے۔شاعری دراصل لفظوں میں چھپا ہوا خاموش وجدان ہے۔ یہ انسان کی لاشعوری گہرائیوں میں اُتر کر وہ کچھ کہتی ہے جسے منطق چھو بھی نہیں سکتی یہ ایک مکالمہ ہے ۔ انسان اور کائنات کے درمیان، دل اور روح کے درمیان، وجود اور ذات کے درمیان۔شاعری محض جذبات کا اظہار نہیں، بلکہ ایک فکری تحریک، روحانی پیغام، اور سماجی بیداری کا موثر ذریعہ ہے۔ انسانی معاشرے کی اصلاح میں شاعری نے ہمیشہ ایک مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ ایک شاعر اپنے حساس دل، بلند نظر اور گہرے مشاہدے کے ذریعے وہ سچ بولتا ہے جو اکثر معاشرہ سننا نہیں چاہتا۔ وہ ظلم، ناانصافی، طبقاتی فرق، اخلاقی زوال اور انسانی قدروں کی پامالی کے خلاف اپنی آواز شعر کی صورت میں بلند کرتا ہے۔ یہی آواز کبھی انقلابی نعرہ بن جاتی ہے، کبھی درد کی چپ کہانی، اور کبھی امید کی ایک کرن۔شاعری معاشرتی شعور کو جگاتی ہے، لوگوں کو اپنے حقوق، ذمہ داریوں اور اخلاقی اقدار کی پہچان کراتی ہے۔ اقبال نے خودی کا درس دیا، فیض نے ظلم کے خلاف قلم اٹھایا، حالی نے قوم کی زبوں حالی پر مرثیہ کہا، اور خواجہ غلام فرید نے محبت، رواداری اور انسانی اخوت کا پیغام عام کیا۔ یہ سب شاعری ہی کے پیرائے میں معاشرے کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دے رہے تھے۔شاعری دلوں کو نرم کرتی ہے، سوچوں کو بیدار کرتی ہے، اور معاشرتی تبدیلی کے لیے ایک فکری زمین ہموار کرتی ہے۔ وہ افراد کو خود شناسی، خدا شناسی اور انسان دوستی کے راستے پر گامزن کرتی ہے۔ لہٰذا، شاعری محض ایک فن نہیں، بلکہ ایک تہذیبی، اخلاقی اور فکری قوت ہے جو انسانی معاشرے کی تشکیل و تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ان نام نہاد دانشوروں کی تنقید اکثر ادب کی گہرائی سے ناواقفیت یا شعوری تنگ نظری کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرتے ہیں کہ جن معاشروں نے ادب اور فن کی قدر کی، وہ فکری لحاظ سے بلند ہوئے۔ گویا شاعری اور ادب صرف جذباتی اظہار نہیں، بلکہ ایک تہذیبی، فکری، اور روحانی ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ادب کو کمتر سمجھنے والے دراصل انسانی جذبات، جمالیات اور روحانیت سے کٹے ہوئے لوگ ہیں۔ ان کی تنقید نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ اس فکری زوال کی نشاندہی بھی کرتی ہے جس میں عقل تو ہے، مگر دل سے محرومی غالب آ چکی ہے۔شاعری و ادب پر تنقید کرنے والے یہ نام نہاد اور خودساختہ دانشور دراصل نرگسیت کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ خود کو عقل کا محور سمجھتے ہوئے ہر اُس فکری اور تخلیقی اظہار کو کمتر جانتے ہیں جو دل، احساس اور روح کی گہرائیوں سے پھوٹتا ہے۔ ان کی تنقید درحقیقت ذہنی افلاس، فکری جمود اور اندرونی کمزوری کی علامت ہے، نہ کہ کوئی سنجیدہ علمی موقف۔ ایسے لوگ معاشرے کی جمالیاتی و فکری ترقی کی راہ میں رکاوٹ بننے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔
Leave a Reply