از قلم: تفشالا سرور چھینہ
آپ اداس ہیں بلکہ بہت زیادہ اداس ہیں لیکن اس کی وجہ کیا ہے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کوئی بھی ہم سے پوچھے کہ یار ایسے کیوں ہو گئے ہو کیا ہوا ہے تمہیں تو ہم سمپلی کہہ دیتے ہیں کہ مجھے خود نہیں پتا مجھے کیا ہوا ہے۔اداسی میرے اندر آپ ہی آپ گھر کرتی جا رہی ہے۔ میں شاید اب پہلے جیسے بی ہیو نا کر سکوں۔ بہت کچھ بدل گیا ہے۔اب پہلے کی طرح ہنسا نہیں جاتا مجھ سے۔ حالانکہ ہم اپنے اندر کی کیفیت سے بخوبی آگاہ ہوتے ہیں۔اور میرے خیال میں یہ وہ جواب ہیں جو ہم سب ہی ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔
تبدیلی اچھی ہوتی ہے لیکن اچھی تبدیلی کو ہی اچھا کہا جا سکتا ہے۔ زندہ ہوتے ہوئے بھی خود پر مردہ احساس کو طاری کرنا کہاں کی سمجھداری ہے؟اب بہت سے لوگ کہیں گے کہ جب خود پر گزرتی ہے تو پتا چلتا ہے یوں باتیں کرنا آسان ہوتا ہے ۔ہاں شاید میں آپ لوگوں کی جگہ نہیں ہوں لیکن ایک بات یاد رکھیں ہر کوئی اپنی لائف میں سفر کر رہا ہوتا ہے۔یہ زندگی آزمائش ہے اور آزمائشیں کبھی آسان نہیں ہوا کرتیں۔
آپ اگر پہلے جیسے نہیں رہے تو اب بھی بدلیں خود کو۔ اس مردنی سے باہر نکلنے کی کوشش تو کریں۔ورنہ یاد رکھیں لوگ آپ کے ساتھ جس قدر بھی مخلص ہوں ایک دن اکتا جائیں گے۔ہر کسی کے اپنے مسائل ہیں وہ ان سے نہیں نکل پا رہے آپ کو کب تک سنیں گے؟ اور پھر وہ آپ سے بھاگنے لگیں گے کیونکہ مردوں سے چاہے جتنی بھی محبت ہو انھیں پاس نہیں رکھا جاتا۔
ویسے کیا آپ کو پتا ہے اس اداسی کی اصل وجہ وہ نہیں جو آپ جانتے ہیں اصل وجہ تو یہ ہے کہ آپ رب العالمین کو رب العالمین ہی نہیں سمجھ رہے۔ جی بالکل ایسا ہی ہے ہم لوگ زبان سے کہتے ہیں کہ ہمیں اللّٰہ تعالیٰ پر بھروسہ ہے مگر اندر ہی اندر گھل رہے ہوتے ہیں۔ پھر یا تو سب اس کے حوالے نا کریں یا پھر پریشان ہونا چھوڑ دیں۔
یہ دنیا اللّٰہ تعالیٰ کے نزدیک ایک مچھر کے پر کے جتنی بھی اہمیت نہیں رکھتی۔ اگر آپ فلکیات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو آپ کو پتا ہو گا کہ ہم ملکی وے گلیکسی میں رہتے ہیں اور اس گلیکسی کے اندر رہ اگر ہم ناسا کے ذریعے لی گئی اپنی زمین کی تصویر کو دیکھیں تو وہ ایک آسانی سے نا نظر آنے والا بلیو ڈاٹ لگتی ہے۔اور ایک اندازے کے مطابق کائنات میں ایسی گلیکسیز کی تعداد اتنی ہے کہ اسے زمین پر رہنے والے عربوں لوگوں میں تقسیم کیا جائے تو ہر شخص کے حصے میں اڈھائی سو سے زائد گلیکسیز آئیں گی۔ تو اب سوچیں کہ اتنی بڑی کائنات میں ہماری زمین اور ہماری خود کی کیا اہمیت ہے ؟
لیکن لیکن وہ اللّٰہ تعالیٰ ہے اس کے نزدیک اپنے بندوں کی اہمیت ہے وہ پیار کرتا ہے ہم سے۔ وہ ہماری دعاؤں کا منتظر رہتا ہے ہمارا اس کے پاس جانے کا انتظار کرتا ہے۔ تو زرا غور کریں اتنے پیارے اللّٰہ تعالیٰ کو ہم اپنے دل میں کہاں رکھے ہوئے ہیں؟کیا ہمیں اس پر وہ بھروسہ ہے جو ہمیں کرنا چاہیے ؟ تو آج ایک بار پورے یقین سے ہر چیز اس کے حوالے کر کے اس کے سامنے جھک جائیں۔ میں پورے ایمان سے کہہ سکتی ہوں جتنا آپ کا یقین ہوگا آپ اسی قدر اس کے محبوب بن جائیں گے۔ اور یہ تو آپ نے سنا ہی ہوگا کہ جب اللّٰہ تعالیٰ کسی سے محبت کرتے ہیں تو پھر جبرائیل سے کہتے ہیں کہ میں اس سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو اور پھر وہ باقی فرشتوں میں صدا لگاتے ہیں کہ اللّٰہ تعالیٰ اس بندے سے محبت کرتے ہیں تم بھی کرو یوں پوری کائنات میں اللّٰہ تعالیٰ کی اس سے محبت کی صدا گونجنے لگتی ہے(اللہ تعالٰی کی اور میری محبت اللّٰہ تعالیٰ کی اور آپ کی محبت) پھر وہ زمین والوں کی نظروں میں بھی محبوب ہو جاتا ہے۔
تو چلیں رجوع کے ذریعے اس کی اور اپنی محبت کی داستان کو اپنی جانب سے شروع کرنے کے لیے پہلا قدم اُٹھاتے ہیں کیونکہ اس کی جانب سے تو یہ ہمارے پیدا ہونے سے بھی پہلے کی شروع ہو چکی ہے۔یہ الفاظ لکھتے میں پورے دل سے یہ دعا مانگ رہی ہوں کہ اللّٰہ تعالیٰ میرے یہ الفاظ ہر اس شخص تک پہنچا دیں جس کے بارے آپ چاہتے ہیں وہ آپ کا محبوب بن جائے۔
آمین ثم آمین یا رب العالمین۔
Leave a Reply