تازہ ترین / Latest
  Sunday, October 20th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

تختی، قلم، دوات اور سلیٹ تختی

Articles , Snippets , / Thursday, May 30th, 2024

قلم دوات اور سلیٹ آج سے لگ بھگ پچیس تیس سال قبل پڑھائی لکھائی کا ایک بہت ہی اہم جزو تھے یا یہ کہہ لیں کہ جب بھی کسی بچے کی لکھائی پڑھای شروع کروانی ہوتی تھی تو کتاب اور بستے سے بھی پہلے جس چیز کی ضرورت محسوس ہوتی تھی وہ تھی تختی، قلم اور دوات اور سلیٹ اور چاک. کیا بھلے زمانے تھے جب ہر چھوٹے بڑے کو لکھائی بہتر سے بہتر کرنے کا شوق نہیں جنون تھا بھری دوپہر میں گاچنی سے تختیاں صاف کر کے تختیاں سکھای جاتی تھیں سیاہی کو پانی میں گھول کے سیاہی کی دوات تیار کی جاتی تھی. کانے سے قلم کشید کر کے اس کی نب بنای جاتی تھی اور پھر خوش الخطی کی باقاعدہ مشقیں، خوش خطی کو پروان چڑھانے کا ایک الف لیلوی جہان آباد ہوتا تھا جس میں نانا دادا، سے لیکر ابا، چاچا اور ماما کے علاوہ سکول کے ماہر اساتذۂ کا بھی بہت بڑا حصہ ہوتا تھا. ریاضی کی مشق کے لیے ماہر اساتذۂ کی زیر نگرانی سلیٹ اور چاک کا ہونا بھی قلم دوات اور تختی کی طرح انتہائی ضروری تھا. تختی، دوات اور قلم
وہ تختی، دوات اور قلم کا زمانہ
بھلا سا زمانہ
محبت کا خانہ
نگاہوں سے اوجھل وہ ہوتا نہیں
بہت درد ہے پر دل روتا نہیں
وہ پیاروں کا ہاتھوں سے اپنے سکھانا
قلم سے سیاہی سے موتی بنانا
وہ موتی میں الفاظ کے سب خزانے
ہوے ہم کبھی بھی نہ ایسے دیوانے
سکھاتے پھرے گیلی تختی کو پونم
مٹاتے گءیے تنگی دستی کو پونم
قلم. اور دوات اور تختی کے ساے
ہوے جانے کیسے یوں اک دم پراے
آج کے دور میں شاید ہی کسی بچے کع تختی، قلم اور دوات کا پتہ ہو اور سلیٹ چاک تو ہویں خواب و خیال کی باتیں.
آج کل تو اساتذہ اور طلبہ، طالبات میں فاصلے اتنے بڑھ چکے ہیں کہ نیٹ کی تیز رفتاری بھی ان فاصلوں کو پاٹنے سے قاصر ہے.
کہاں گیے وہ اساتذۂ کرام جو اپنے سکون کو تج کے اپنی نیندوں کو حرام کر کے اپنے students کو سکھانے کے سو سو جتن کرتے تھے اپنے علم کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنے کے لیے ہمہ وقت بے چین رہتے تھے کچے پکے سکول تھے ٹاٹ پہ بیٹھ کے پڑھنے والے تھے مگر علم کی روشنی گھر گھر میں پھیل رہی تھی پڑھانے والے سکھ، انگریز یا ہندو تھے مگر ہر استاد کو یہ لگن تھی کہ اپنے سینے میں مدفون علم کے خزانے خاک میں خاک ہو جانے سے پہلے بانٹ جاے. مگر پھر ایک ایسی بے مہر ہوا چلی کہ ایک ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے والے ایک دوسرے کے جانی دشمن ہوے رشتہ داریاں، پیار محبت اور خلوص وفا لگ گیا کھڈے لاین اور ہر رشتہ ناتہ دولت کے بے مہر اور بے وفا پلڑوں میں تلنے لگا. چھوٹے چھوٹے سکولوں سے بڑے بڑے سکول اور ان بڑے بڑے سکولوں کے انتہائی چھوٹے قد و قامت والے مالکان نے کوڑیوں کے بھاو نکمے ترین اساتذۂ کا وہ والا جم غفیر اکٹھا کر لیا جو کسی فیشن پریڈ کا حصہ تو ہو سکتے تھے قوم کے مستقبل کے معماروں کے اساتذہ ہر گز نہیں اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ان نکمے ترین اساتذۂ کے ڈسے ہوے، ستاے ہوے طالبعلموں کی تعداد غیر محسوس طریقے سے بڑھتی ہء چلی گئی. بڑی بڑی کتابیں ،کتابوں سے بھی بڑے بستے اور علم کی تذلیل جی بھر کے کہ نہ. ہی پڑھانے والوں کو پڑھانا آتا ہے اور نہ ہی پڑھنے والے پڑھنا چاہتے ہیں بالکل یہ شعر موجودہ زمانے کے اساتذہ اور سٹوڈنٹس دونوں کا بہترین ترجمان ہے
چلی ہے دشمنوں نے چال ایسی. کہ اپنوں ہی میں جھگڑا ہو رہا ہے
بات بڑھ گءی ہے اب
عوام ڈر گءی ہے اب
قلم دوات اک طرف
سلیٹ چاک اک طرف
ہے مستقبل خطرے میں
ہے طفل جنگ بجا ہوا
تحریر جل چکی ہے اب
تصویر جل چکی ہے اب
ہو رحم ان ہواوں سے
ہو رحم ان فضاوں سے
میرے تو بس میں کچھ نہیں
چلے گا کام دعاووں سے
اللہ پاک ہمارے اور آپ کے بچوں پہ رحم فرمائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International