rki.news
تحریر
طارق محمود
میرج کنسلٹنٹ
ایکسپرٹ میرج بیورو انٹرنیشنل
پاکستان آج جس معاشرتی، سیاسی اور معاشی زوال سے گزر رہا ہے، اس کی جڑیں کسی ایک حکومت، کسی ایک جماعت یا کسی ایک فرد تک محدود نہیں۔ اصل مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا اور خطرناک ہے — اور وہ ہے انسان کی تربیت کا فقدان۔
مفاد پرستی، خود غرضی، اقتدار اور عہدوں کی ہوس، اور سرمائے کی اندھی محبت نے ہمارے معاشرے کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ یہ محض سماجی خرابیاں نہیں بلکہ گہرے روحانی امراض ہیں، جو انسان کی دنیا بھی برباد کرتے ہیں اور آخرت بھی۔ جب انسان کا باطن بیمار ہو جائے تو اس کے فیصلے، اس کی سیاست اور اس کی دینداری — سب بیمار ہو جاتی ہے۔
ہمارے اکابر نے ان امراض کا علاج قانون یا طاقت میں نہیں بلکہ تربیت میں بتایا تھا۔ ایسی تربیت جو طریقت اور تصوف کے ذریعے نفس کو قابو میں لائے، دل کو پاک کرے اور انسان کو انسان سے جوڑ دے۔ یہی تربیت انسان میں اعتدال پیدا کرتی ہے، اسے خود غرضی سے نکال کر انسان دوستی کی طرف لے جاتی ہے، اور اسے اللہ سے جوڑ دیتی ہے۔
جب تعلق مع اللہ مضبوط ہوتا ہے تو انسان میں وسعتِ قلبی اور وسعتِ نظری پیدا ہوتی ہے۔ پھر رنگ، نسل اور مذہب کی تفریق باقی نہیں رہتی۔ انسان دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنے لگتا ہے، اور کسی پر ہونے والے ظلم کو اپنے اوپر ظلم تصور کرتا ہے۔ وہ صرف بات نہیں کرتا، بلکہ عملاً انسانوں کی بھوک مٹانے، ان کے دکھ بانٹنے اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے۔
ایسا انسان سمجھتا ہے کہ روٹی، رہائش، تعلیم، صحت اور نکاح جیسے بنیادی حقوق محض سماجی مطالبات نہیں بلکہ انسانی ذمہ داریاں ہیں۔ وہ خدمتِ خلق کو اللہ کی رضا اور آخرت کی نجات کا ذریعہ سمجھتا ہے، اس لیے ہر مشکل، ہر قربانی اور ہر جدوجہد کو قبول کر لیتا ہے۔
بدقسمتی سے ہم نے شریعت اور سیاست کو تو موضوعِ بحث بنا لیا، مگر طریقت کو غیر ضروری سمجھ کر نظر انداز کر دیا۔ حالانکہ طریقت ہی وہ تربیتی نظام ہے جو انسان کو شریعت پر چلنے کی سمجھ اور سیاست کو دیانت کے ساتھ برتنے کی عقل دیتا ہے۔ تربیت کے بغیر شریعت شدت پسندی اور سیاست مفاد پرستی میں بدل جاتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں پھیلتی ہوئی طبقاتی خلیج، نسلی اور مذہبی نفرت، معاشرتی بے چینی اور بدامنی اسی تربیتی خلا کا نتیجہ ہے۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سی مذہبی اور سیاسی جماعتیں خود انہی بیماریوں کا شکار ہو چکی ہیں۔ حبِ جاہ اور حبِ مال نے انہیں اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ وہ خود کو کسی اصلاح یا تربیت کا محتاج نہیں سمجھتیں، اور عقلِ کل ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔
نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ جماعتیں کمزور، معاشرہ تقسیم، اور ریاست بے سمت کھڑی ہے۔ خلقِ خدا اذیت میں ہے اور ہر شخص دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے، مگر کوئی خود کو بدلنے پر آمادہ نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ بحرانوں کا حل کسی نئے نعرے، کسی وقتی اتحاد یا کسی ایک چہرے میں نہیں۔ حل صرف اور صرف انسان کی تربیت میں ہے۔ جب فرد بدلے گا تو جماعت بدلے گی، جب جماعت بدلے گی تو نظام بدلے گا۔
جب تک ہم نے انسان کے باطن کی اصلاح کو قومی ترجیح نہیں بنایا، اس وقت تک نہ معاشرہ سنورے گا اور نہ ریاست۔ نجات کا راستہ وہیں سے شروع ہوتا ہے جہاں انسان خود کو بدلنے کا حوصلہ پیدا کرتا ہے۔
Leave a Reply