تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
ترکی اورکردستان ورکرپارٹی کےدرمیان جنگ بندی
“میں ہتھیار ڈالنے کی اپیل کر رہا ہوں اور اس تاریخی ذمہ داری کو قبول کرتا ہوں۔امن ہتھیار اٹھانے اور جنگ سے زیادہ طاقتور ہے ہم امن و سلامتی کا پیغام دینا چاہتے ہیں”یہ بیان عبداللہ اوچلان نےترکی اور کردستان ورکر پارٹی(پی کے کے)کے درمیان جنگ بندی مذاکرات کامیاب ہونے کے بعددیا۔ترکی اور کردوں کے درمیان کافی عرصے سے جنگ جاری تھی۔1978ء میں کردوں پر ہونے والی زیادتیوں کے خلاف عبداللہ اوچلان نےایک تحریک شروع کی،جس کا مقصد آزادکرد ریاست کا قیام تھا۔پہلےاس تحریک کا مقصد سیاسی تھا۔1984 میں اس تحریک نے مسلح جدوجہد شروع کر دی۔1999 میں عبداللہ کو گرفتار کر لیا گیااور بغاوت کے جرم میں اس کوسزائے موت سنا دی گئی۔بعد میں ترکی میں موت پر پابندی لگ جانے کے تناظر میں ان کی موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا گیا۔2012 میں ترک صدر رجب طیب اردگان اورقیدی کرد رہنمااوچلان کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے،لیکن مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔اب مذاکرات کامیاب ہو چکے ہیں اورباغی جماعت نے ہتھیار ڈال دئیے۔مسلح جدوجہد 40 برس تک جاری رہی۔40 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئےاور لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے۔کردرہنما نے یہ بھی کہا ہے کہ “کردوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا جا رہا تھا تو کردستان ورکر پارٹی وجود میں آئی۔چیلنجزکا سامنا کرنے کے لیے کردستان ورکر پارٹی کا قیام ناگزیر تھا”اپنے حقوق کےحصول اور وجود کو تسلیم کرانے کے لیےمسلح جدوجہد شروع ہوئی۔کرداپنی بقا کے لیےجدوجہد کرتے رہے۔کرد اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے تھے۔ان پر ظلم بھی کیا گیا اور مسلح حملے بھی کیے گئے۔40 سال تک جاری رہنے والی جنگ بالآخر ختم ہو گئی۔ترکی،یورپی یونین اور امریکہ کی طرف سے’پی کے کے،کو دہشت گرد گروپ کہا گیا تھا۔ترکی حکومت کردوں کو دہشت گرداورباغی سمجھتی تھی،اس لیےان کے خلاف کاروائیاں جاری رکھیں۔
کرد نسل کوئی مخصوص ریاست نہیں رکھتی لیکن مشرق وسطی کے بہت سے علاقوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ترکی میں بھی کل آبادی کا 20 فیصد رہتے ہیں۔آرمینیا، عراق ،ایران،شام اور ترکی کے سرحدی علاقوں میں بھی رہتے ہیں۔پہلی عالمی جنگ میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد سیورے کے معاہدے میں کردوں سےآزادی کا وعدہ کیا گیا تھا۔بعد میں ترک رہنما کمال اتا ترک نے یہ معائدہ توڑ دیا۔عراق میں بھی کردوں تشدد کا نشانہ بنایا گیااور صدام حسین پر کردوں کی نسل کشی کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ہو سکتا ہے صدام حسین نے ان پر مظالم نہ ڈھائے ہوں۔2003 میں امریکہ نے اپنے اتحاد کے ساتھ عراق پر حملہ کیا تو عراق میں کرد علاقوں کی قیادت نے امریکہ سے تعاون کیا۔امریکہ سے کیا گیا تعاون کردوں کو باغی ثابت کرتا ہے۔کردوں کے دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی تعلقات بہتر نہیں رہے۔ایران میں بھی حکومت اور کردوں کےدرمیان مسلح جدوجہدہوتی رہی ہے۔شام میں بھی کردوں کے خلاف جنگی ماحول بنا رہا۔سب سے زیادہ مشکلات ترکی میں کردوں کو پیش آئیں۔اب ایک لمبے عرصے کے بعد جنگ بندی ہوئی۔اس جنگ بندی نےامن کی راہ ہموار کر دی ہے اور امید ہے کہ بعد میں بدامنی پیدا نہیں ہوگی۔دوسرے ممالک کے ساتھ بھی کردوں کے معاہدے ہو جائیں توبہترہے۔شام،ایران یاکہیں بھی کرد ریائش پذیر ہیں،تو امید ہےکہ وہاں بھی ان سے زیادتیوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔اگر کرد منفی سرگرمیوں میں ملوث ہیں،تو وہ منفی سرگرمیوں کو ترک کر دیں اور قومی دھارےمیں شامل ہو جائیں۔
اب جب کردوں نے ہتھیار ڈال دیے ہیں اور امن کے لیےنیک خواہشات کا اظہار کیا گیا ہے تو ترکی کو بھی چاہیے کہ ان کو اپنے حقوق بھی دے۔ترکی یا کوئی ملک بھی اندرونی خانہ جنگی کوبرداشت نہیں کر سکتا،کیونکہ اندرونی خانہ جنگی پرآسانی سے قابو نہیں پایا جا سکتا۔کرد جوجنگ کو 40 سال تک پھیلانے کامیاب رہے تو یہی وجہ ہے کہ وہ ترکی کے اندر ہی جدوجہد کر رہے تھے۔سرحدوں کے ساتھ رہنے والے کردوں پر فضائی بمباری بھی کی جاتی رہی ہےاور دیگر ہتھیاروں سے بھی نشانہ بنایا گیا۔کردمختلف علاقوں میں پھیلےہوئے ہیں،اس لیے ان کی باضابطہ طورپرتعداد کے بارے میں علم نہیں لیکن اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان کی تعداد ساڑھے تین کروڑ سے لے کر ساڑھے چار کروڑ تک ہے۔ترقی یافتہ ممالک میں بھی کردوں کی کافی تعداد موجود ہے۔کرد اگر اپنی شناخت چاہتے ہیں تو ان کو پرامن طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا۔کسی بھی انسان کا حق ہے کہ وہ اپنی شناخت کو برقرار رکھے۔جن ممالک میں کرد موجود ہیں تو ان ممالک کو چاہیے کہ کردوں کو اپنی شناخت قائم کرنے میں کوئی رکاوٹ نہ ڈالیں۔ترکی میں اب معاہدے کے بعدکردوں کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہیے،ورنہ حالات خراب ہو جائیں گےکیونکہ وہ دوبارہ مسلح جدوجہد جاری رکھ سکتے ہیں۔مشرق وسطی میں بھی امن کی ضرورت ہےاور کرد اگر کوئی منفی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں تو مشرق وسطی میں مزید آگ بھڑک اٹھے گی۔جہاں بھی کسی پر ظلم ہو رہا ہوتو اس کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔مشرق وسطی میں بہت زیادہ ظلم ہو رہا ہے۔اپنے مفادات کی خاطر بڑی بڑی قوتیں نہیں چاہتی کہ مشرق وسطی میں امن قائم رہے۔کرد بھی غیر ملکی طاقتوں کے زیر اثرآکرانتشار پھیلانے کی کوشش کر سکتے ہیں،اگر انتشار پھیلایا گیا تو کردتنزلی کا مزید شکار ہو جائیں گے۔عالمی برادری کوشش کرےکہ کردوں کو اپنے حقوق ملیں۔اگرکرد جان بوجھ کرانتشارکی طرف راغب ہیں اور بغاوت جیسےجرم میں ملوث ہیں تو ان کو سزا بھی ملنی چاہیے۔اس وقت یہ حال ہے کہ دنیا کے ہر ملک میں کوئی نہ کوئی مزاحمتی تحریکیں جاری ہیں۔کہیں لسانی تحریک اٹھی ہوئی ہے اور کہیں سیاست کے نام پر،کہیں نسل اورحقوق کے نام پر تحریکیں اٹھی ہوئی ہیں اور کہیں کہیں یہ تحریکیں حکومت کے خلاف انتشار بھی پھیلا رہی ہیں۔بہرحال کرد اور ترکی حکومت کے درمیان جو مذاکرات ہوئے ہیں،امید کرنی چاہیے کہ یہ کامیاب ہو جائیں گے۔
Leave a Reply