تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com
ترکی میں اس وقت انتشار پھیل رہا ہے۔طیب اردگان سخت مشکل میں پھنس چکے ہیں۔اپوزیشن پارٹی ان کی حکومت کے خلاف مظاہرے اور احتجاج کر رہی ہے۔اس اپوزیشن پارٹی کے ساتھ عوامی تعاون میں اضافہ ہو رہا ہے۔ترکی کے صدر نے اپنے بڑے مخالف امام اوغلو کو گرفتار کر کے مظاہروں پر قابو پانے کی کوشش کی ہے،لیکن فی الحال قابو پانے میں ناکام ہیں۔اکرم امام اوغلو استنبول کے مئیر ہیں اور ان پر مختلف مجرمانہ الزامات لگائے گئے ہیں۔بھتہ خوری،رشوت،بدعنوانی سمیت ایک مجرمانہ تنظیم چلانے کےبھی الزامات ہیں۔امام اوغلو کی گرفتاری نےپورے ملک کو متاثر کر دیا ہے۔ترکی کے صدر طیب اردگان نے اپوزیشن پر الزام لگایا ہے کہ وہ شہریوں کو احتجاج پر اکسا رہی ہے۔صدر نے یہ بھی کہا ہے کہ ملک میں ہونے والے شدید مظاہروں کو فوری بند کیاجائے۔صدر کی طرف سےاملاک کو پہنچنے والے نقصان،گزشتہ چھ روز سے ملک میں ہونے والے شدید مظاہروں اور پولیس کو پہنچنے والے نقصان کی ذمہ دار اپوزیشن کوکہاگیاہے۔یہ مظاہرے اب پرتشدد تحریک میں بدل رہے ہیں اور خطرہ ہے کہ ترکی میں انارکی پھیل سکتی ہے۔اگر ان مظاہروں کو کنٹرول نہ کیا جا سکا تو ترکی کوبہت بڑا نقصان پہنچ سکتا ہے۔طیب اردگان کا دعوی ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہےاور عدلیہ سمیت تمام ادارے آزاد ہیں۔یہ بھی دعوی کیا جاتا ہے کہ ترکی میں جمہوری نظام ہے۔اپوزیشن ترکی کے صدر کے دعوے تسلیم نہیں کرتی۔اپوزیشن کی طرف سےالزام لگایا جاتا ہے کہ عوامی رائے کو دبایا جاتا ہے اور کسی تنقید کی صورت میں جیل کی سزا ہو جاتی ہے۔ترکی میں صدر کی تضحیک پر جیل کی سزا ملتی ہے۔امام اوغلو کو تین باراستنبول کامئیر مقرر کیا جا چکا ہے۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق وسیع پیمانے پر سیاسی گرفتاریاں انتقامی کاروائی ہے۔ان مظاہروں کو شروع ہوئے ابھی تو زیادہ عرصہ نہیں ہوا لیکن جتنا عرصہ گزرتا جائے گا،ان میں شدت بڑھتی جائے گی۔
ترکی کے صدر عالمی طور پر ایک اہم مقام رکھتے ہیں۔بہت سے حلقوں میں طیب اردگان کو اسلامی دنیا کے نمایاں لیڈران میں شمار کیا جاتا ہے۔انہوں نےمسلمانوں کے لیے کئی دفعہ آواز بلند کی ہے۔روہنگیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف مضبوط آواز اٹھائی۔ان کا تاثر ایک اچھے مسلم حکمران کے طور پر دنیا میں پایا جاتا ہے۔استنبول کے سابق ناظم کے علاوہ ترکی کے وزیراعظم بھی رہے ہیں اور اب ترکی کے بارہویں منتخب صدر ہیں۔ترکی میں بہت سے مسلمان ان کے حامی ہیں۔1999ء میں انہیں ایک دفعہ مذہبی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے جرم میں چار ماہ جیل کی سزا بھی ملی۔جیل جانےکی وجہ یہ ہےکہ انہوں نے سرعام ایک وطن پرستی سےسرشار نظم پڑھی،جس میں کہا گیا تھا کہ مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں،گنبد ہمارے خود ہیں،میناریں ہمارے سنگینیں ہیں اور مومن ہمارے سپاہی ہیں۔2002 ءمیں ترکی کے وزیراعظم جب طیب اردگان بنےتو اس وقت ترکی معاشی بدحالی کا شکار تھا۔بطور وزیراعظم انہوں نے ترکی کو معاشی بدحالی سےنکالااور اقتصادی حالت بہتر کر دی۔انہوں نےاسلام کے فروغ کے لیے بھی ترکی میں بے تحاشہ کام کیا۔ترکی ایک سیکولر سٹیٹ تھا۔مصطفی کمال نے اسلام کی بجائےسیکولرزم کو ترجیح دی۔آرمی کی کوشش تھی کہ ترکی سیکولر سٹیٹ رہے۔مغرب بھی ترکی میں سیکولرزم نظام چاہتا تھا۔اپ ترکی میں اسلام پھیل رہا ہے.ترکی میں کمال اتاترک نےاسلامی کی بجائے مغربی نظام قائم کیا۔عربی زبان کوختم کرنے کی کوشش کی گئی،لیکن ترک مسلمانوں نے اسلام کے لیےزبردست کوششیں کیں۔اب ترکی ایک اسلامی ریاست کے طور پرجانا جاتا ہے۔15 جولائی 2016ءکو جب فوج کے ایک دھڑے نے ملک میں بغاوت کر کےمارشل لا کا اعلان کیا تو عوام باہر نکل آِئے۔شہری فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔فوری طور پر بغاوت کو عوام نے کچل ڈالا۔فوجی بغاوت کو کچلنے کے بعد طیب اردگان کی مقبولیت مزید بڑھ گئی۔
اب طیب اردگان کی مقبولیت میں امام اوغلو کی وجہ سے کمی ہو رہی ہے۔مظاہرین روزانہ رات کو نکل رہے ہیں،حالانکہ ان کو گرفتار بھی کیا جا رہا ہے۔گرفتاری کے علاوہ انسو گیس اور ربڑ کی گولیاں بھی ان پر چلائی جا رہی ہیں۔1100 سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں اور مزید گرفتاریاں بھی جاری ہیں۔گرفتاریوں اور تشدد کے باوجود بھی عوام نکل رہی ہے تواس سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ عوام میں امام اوغلو کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ترکی کے میڈیا پرطیب اردگان کا موثر کنٹرول ہے،لیکن عوام کو کنٹرول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔اس طرح تحریک چلتی رہی تو حالات طیب اردگان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔انسانی حقوق کو اگر ترکی میں پامال کیا جا رہا ہےتو یہ ظلم ہے۔انسانی حقوق کا خیال نہ رکھنا طیب اردگان کے لیےخاصا خطرناک ہو سکتا ہے۔اب عوام کو طیب اردگان کے مقابلے میں امام اوغلو جیسا لیڈر مل گیا ہےاورامام اوغلو کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا رہا تو اگلےترکی کے صدر امام اوغلو بھی ہو سکتے ہیں۔ترکی میں 2028 میں صدارتی انتخابات ہوں گے۔اگر امام اوغلو واقعی مجرم ہیں تو ان کو سزا مل سکتی ہے۔سزا یافتہ مجرم کےلیے ترکی کا صدربننامشکل ہوگا اور اس بات کا بھی امکان ہے کہ 2028 سے زیادہ عرصےکےلیے امام اوغلو قید بھی ہو سکتے ہیں۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ کیا طیب اردگان خوفزدہ ہو گئے ہیں کہ ان کا اقتدار ختم ہونے والا ہے؟دو دہائیوں سے زیادہ اقتدار میں رہنے والے طیب اردگان اب بھی اتنی پاور رکھتے ہیں کہ وہ لمبے عرصے تک صدر رہیں۔اگرطیب اردگان سے اقتدار چھن جاتا ہے تو پارٹی کاکوئی دوسرا رکن ان کی جگہ سنبھال سکتا ہے۔اگرطیب اردگان واقعی ترکی میں آمریت قائم کر رہے ہیں تو زیادہ عرصے تک آمریت نہیں چل سکتی۔ترکی کی عوام ان کو اقتدار سے فارغ کر سکتی ہے۔جس طرح ان پر الزامات لگ رہے ہیں کہ وہ تشدد کے ذریعے مظاہروں کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں،تووہ زیادہ عرصے تک مظاہروں کو روک نہیں پائیں گے۔ریاستیں شہریوں کے حقوق کا اگر خیال نہ رکھیں،تو عوامی رد عمل حکمرانوں کو اقتدار کےایوانوں سے نکال کر زندانوں میں اور پھانسی گھاٹوں تک پہنچا دیتا ہے۔یہ ایک سبق ہے کہ ظلم کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ویسے بھی اقتدار آنے جانے والی چیز ہے،تھوڑے سے عرصہ کے لیے اقتدار حاصل کر کےانسانوں کو نقصان پہنچانا کہاں کی عقلمندی ہے؟
Leave a Reply