Today ePaper
Rahbar e Kisan International

تشدد کا شکار تعلیمی اداروں میں طلبہ کی غیر حاضری کی ایک اہم وجہ

Articles , Snippets , / Thursday, April 17th, 2025

rki.news

(تحریر احسن انصاری)

پاکستان کا تعلیمی نظام کئی دہائیوں سے مختلف مسائل کا شکار ہے، جن میں سے ایک نمایاں مسئلہ طلبہ کی بڑھتی ہوئی غیر حاضری اور تعلیم کے معیار میں مسلسل کمی ہے۔ اس زوال کی بہت سی وجوہات ہیں، جن میں ناقص انفراسٹرکچر، وسائل کی کمی، نصاب کی غیر موزونیت، والدین کی عدم دلچسپی، اور معاشرتی دباؤ شامل ہیں۔ تاہم، ایک اہم اور اکثر نظر انداز کی جانے والی وجہ اساتذہ کا طلبہ پر تشدد ہے، جو کہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور جذباتی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ یہ عمل طلبہ کی نفسیات، تعلیمی دلچسپی، اور خود اعتمادی پر منفی اثر ڈالتا ہے، جس کے نتائج میں غیر حاضری، کمزور کارکردگی اور تعلیم سے بیزاری شامل ہیں۔

اساتذہ کا کردار کسی بھی تعلیمی نظام کی بنیاد ہوتا ہے۔ ایک اچھا استاد طلبہ کے لیے مشعلِ راہ ہوتا ہے، جو نہ صرف تعلیم دیتا ہے بلکہ ان کی شخصیت کی تعمیر بھی کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے کئی تعلیمی اداروں، خصوصاً سرکاری اسکولوں میں، اساتذہ تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں۔ بعض اوقات معمولی غلطی یا سوال کا جواب نہ دینے پر طلبہ کو مارا پیٹا جاتا ہے، ان کی تذلیل کی جاتی ہے یا کلاس سے نکال دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ نہ صرف بچوں کی تعلیم میں رکاوٹ بنتا ہے بلکہ ان کے اندر خوف، احساسِ کمتری، اور تعلیمی ادارے سے دوری کا رجحان پیدا کرتا ہے۔

جسمانی تشدد جیسے مارنا، تھپڑ مارنا، کان کھینچنا یا چھڑی سے سزا دینا تو واضح مظاہر ہیں، لیکن ذہنی تشدد، جیسے طلبہ کا مذاق اڑانا، ان کا تقابل دوسرے بچوں سے کرنا، یا عوامی طور پر شرمندہ کرنا بھی یکساں طور پر نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس طرح کے رویے سے طالب علم اپنی قدر کھو بیٹھتا ہے، اور رفتہ رفتہ اس کی تعلیمی دلچسپی ختم ہو جاتی ہے۔ جب ایک بچہ بار بار خوف، شرمندگی اور بے عزتی کا سامنا کرتا ہے تو وہ غیر حاضر رہنا ہی بہتر سمجھتا ہے، جس سے غیر حاضری کی شرح میں اضافہ ہوتا ہے۔

تشدد کا شکار بننے والے بچوں میں اکثر ڈپریشن، بے اعتمادی، اور سیکھنے کی صلاحیت میں کمی دیکھی جاتی ہے۔ وہ سوال کرنے سے گھبراتے ہیں، کلاس میں حصہ نہیں لیتے اور رفتہ رفتہ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، ایسے تعلیمی ماحول جہاں استاد دوستانہ، مشفق اور حوصلہ افزا رویہ اختیار کرتا ہے، وہاں طلبہ نہ صرف بہتر نتائج دکھاتے ہیں بلکہ خوشی سے اسکول آتے ہیں اور سیکھنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔

تشدد کی یہ روش زیادہ تر اساتذہ کی تربیت کی کمی اور پرانے نظامِ تعلیم کی وجہ سے ہے۔ کئی اساتذہ خود بھی اسی ماحول میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جہاں سختی اور سزا کو لازمی سمجھا جاتا تھا۔ جب ان کو مناسب تربیت اور رہنمائی فراہم نہیں کی جاتی، تو وہ یہی رویہ اگلی نسلوں پر بھی مسلط کرتے ہیں۔ مزید برآں، تعلیمی اداروں میں طلبہ کے حقوق کے تحفظ کا کوئی مؤثر نظام موجود نہیں، جس سے تشدد کرنے والے اساتذہ کو کوئی جوابدہی محسوس نہیں ہوتی۔

اس مسئلے کا حل صرف قانون سازی میں نہیں، بلکہ اساتذہ کی تربیت، والدین کی شمولیت، اور اداروں کی نگرانی میں بھی ہے۔ اساتذہ کو جدید تدریسی طریقے، بچوں کی نفسیات اور مثبت طرزِ عمل کے بارے میں باقاعدہ تربیت دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسی طرح، تعلیمی اداروں میں شکایات کا مؤثر نظام قائم کیا جائے، جہاں طلبہ یا والدین کسی زیادتی کی صورت میں رپورٹ کر سکیں اور فوری کارروائی کی جائے۔

اس کے علاوہ والدین اور معاشرے کو بھی اس بات کی آگاہی دینی چاہیے کہ تشدد کبھی بھی مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔ وہ اسکولوں میں اپنے بچوں کے رویے، کارکردگی اور استاد کے برتاؤ پر نظر رکھیں اور جب کوئی غیر معمولی بات محسوس ہو تو بروقت ردعمل دیں۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ اسکولوں میں چائلڈ پروٹیکشن پالیسیز لاگو کرے اور ان پر سختی سے عمل درآمد کروائے۔

تعلیم صرف کتابیں پڑھانے کا نام نہیں، بلکہ کردار سازی، خود اعتمادی اور تجسس کی روح پیدا کرنے کا عمل ہے۔ جب تک اساتذہ مثبت اور ہمدردانہ انداز نہیں اپنائیں گے، طلبہ کا تعلیمی سفر خوف، الجھن اور بیزاری کا شکار رہے گا۔ ایک پُرامن، محفوظ اور حوصلہ افزا تعلیمی ماحول ہی پاکستان کو تعلیمی ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے۔( Email: aahsan210@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International