rki.news
(تحریر احسن انصاری)
بُلیئنگ آج کے دور میں دنیا بھر کے تعلیمی اداروں کو درپیش ایک ایسا مسئلہ ہے جو نہ صرف طلبہ کے لیے خوف اور بے چینی کا باعث بنتا ہے بلکہ ان کی شخصیت، رویّوں اور مستقبل پر بھی دور رس اثرات چھوڑتا ہے۔ اسکول اور کالج وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں بچے اور نوجوان اعتماد، برداشت، اخلاقیات اور سماجی میل جول سیکھتے ہیں، لیکن جب یہ ماحول عدمِ تحفظ کا شکار ہوجائے، تو سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور بچہ اپنی اصل صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا پاتا۔
بُلیئنگ سے مراد کسی فرد یا گروہ کا بار بار اور جان بوجھ کر کسی دوسرے کو جسمانی، ذہنی یا اخلاقی نقصان پہنچانا ہے۔ یہ صرف مارپیٹ یا زبانی بدتمیزی تک محدود نہیں بلکہ اس میں دھمکیاں دینا، مذاق اُڑانا، کسی کو تنہا کرنا، غلط باتیں پھیلانا، یا آن لائن ہراسانی بھی شامل ہے۔ آج کے ڈیجیٹل دور میں سائبر بُلیئنگ نے بُلیئنگ کو ایک نئی اور زیادہ خطرناک شکل دے دی ہے، کیونکہ موبائل اور سوشل میڈیا کے ذریعے متاثرہ طالب علم کو ہر وقت نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
بُلیئنگ کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ بعض اوقات بچے اپنے گھر کے ماحول، والدین کے سخت رویّوں یا ذاتی محرومیوں کی وجہ سے دوسروں پر غصہ اتارتے ہیں۔ کچھ طلبہ اپنے آپ کو غالب ثابت کرنے کے لیے کمزور طلبہ کو نشانہ بناتے ہیں۔ بعض اوقات گروپ میں اپنی جگہ بنانے یا دوستوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بھی بُلیئنگ کی جاتی ہے۔ اسی طرح، جب اسکول میں نگرانی کم ہو یا اساتذہ اور انتظامیہ اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیں، تو بُلیئنگ بڑھنے لگتی ہے اور ایک منفی کلچر جنم لیتا ہے۔
بُلیئنگ کے اثرات انتہائی خطرناک ہوسکتے ہیں۔ جسمانی تکلیف کی بات اپنی جگہ، لیکن اس سے زیادہ نقصان ذہنی اور جذباتی سطح پر ہوتا ہے۔ متاثرہ طلبہ میں خوف، بے چینی، غصہ، ذہنی دباؤ، خود اعتمادی میں کمی، اور بعض اوقات ڈپریشن جیسی کیفیات پیدا ہو جاتی ہیں۔ وہ کلاس میں توجہ نہیں دے پاتے، دوستوں سے دور ہو جاتے ہیں اور بعض حالات میں اسکول جانا چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ان کی تعلیمی کارکردگی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ شدید صورتوں میں بُلیئنگ کا نشانہ بننے والے بچے خود کو نقصان پہنچانے یا انتہائی قدم اٹھانے تک سوچنے لگتے ہیں، جو اس مسئلے کی سنگینی ظاہر کرتا ہے۔
بُلیئنگ کا نقصان صرف متاثرہ طالب علم تک محدود نہیں رہتا۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ بُلیئنگ کرنے والے بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ان میں جارحیت، عدم برداشت اور غیر ذمہ دارانہ رویّے پائے جاتے ہیں۔ یہ رویّے اُن کے ذاتی اور پیشہ ورانہ تعلقات کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یوں یہ مسئلہ محض اسکول تک محدود نہیں رہتا بلکہ ایک شخص کی پوری زندگی اور اس کے معاشرتی کردار کو متاثر کرتا ہے۔
اسی لیے تعلیمی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بُلیئنگ کے خاتمے کے لیے مضبوط، واضح اور سخت پالیسی بنائیں۔ اسکولوں میں مخصوص تربیت یافتہ عملہ ہونا چاہیے جو بُلیئنگ کی علامات کو پہچان سکے اور فوری کارروائی کرے۔ طلبہ، والدین اور اساتذہ کے درمیان مؤثر رابطہ بھی نہایت ضروری ہے۔ اداروں کو چاہیے کہ آگاہی پروگرام، ورکشاپس، اور خصوصی لیکچرز کے ذریعے طلبہ میں احترام، ہمدردی، برداشت اور مثبت رویّوں کو فروغ دیں۔ کلاس میں ایسا ماحول بنایا جائے جہاں ہر طالب علم کی بات سنی جائے اور کسی کو کمزور یا تنہا محسوس نہ ہونے دیا جائے۔
والدین کا کردار بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ اپنے بچوں کے رویّوں پر نظر رکھیں، ان سے بات کریں اور اگر کوئی تبدیلی محسوس ہو تو فوراً توجہ دیں۔ والدین اور اساتذہ دونوں کو بچوں کو یہ احساس دلانا چاہیے کہ وہ محفوظ ہیں، ان کی بات سنی جائے گی اور مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کیے جائیں گے۔
طلبہ خود بھی اس مسئلے کے حل میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اگر وہ کسی کو بُلیئنگ کا شکار دیکھیں تو خاموش نہ رہیں بلکہ اسے روکنے، سمجھانے یا اساتذہ کو آگاہ کرنے میں مدد کریں۔ بُلیئنگ کی شکایت کرنا کمزوری نہیں بلکہ ایک بہادری اور ذمہ داری کا عمل ہے۔ وہ اپنے ہم جماعتوں کے ساتھ ہمدردی اور احترام کا برتاؤ کر کے ایک مثبت ماحول قائم کر سکتے ہیں۔
بُلیئنگ محض ایک انفرادی مسئلہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کا چیلنج ہے۔ اگر ہم اپنے بچوں کو محفوظ، خوش اور پراعتماد دیکھنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مل کر اس مسئلے کے خلاف جدوجہد کرنی ہوگی۔ تعلیمی ادارے وہ جگہیں ہیں جہاں مستقبل کے رہنما تیار ہوتے ہیں۔ اگر وہاں خوف اور نفرت کا ماحول ہو، تو ہم کس طرح ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکیں گے؟ اس لیے ضروری ہے کہ ہم آج ہی سے بُلیئنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کریں، تاکہ ہمارے بچے ایک محفوظ، باوقار اور پُر اعتماد تعلیمی ماحول میں پروان چڑھ سکیں۔
Leave a Reply